فیکٹ چیک: کیا اناج کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے؟
26 جون 2022کیا یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں خوراک کی برآمدات کو بطور ''خاموش ہتھیار‘‘ استعمال کیا جا رہا ہے؟
دعویٰ: روس یوکرین کے خلاف جنگ میں خوراک کے سامان کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے کہتے ہیں، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے طریقوں سے خوراک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: یہ سچ ہے۔
یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے خوراک اور بھوک کے عالمی بحران سے خبردار کر تے چلے آ رہے ہیں۔ سترہ اپریل کو امریکی ٹی وی نیٹ ورک سی بی ایس کے ''فیس دی نیشن‘‘شو میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے اس سوال کا جواب ''ہاں‘‘ میں دیا کہ کیا صدر پوٹن بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے طریقوں سے خوراک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
19 مئی کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے چند دن بعد بیسلے نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، ''اوڈیسا کے علاقے میں بندرگاہیں کھولنے میں ناکامی عالمی غذائی تحفظ کے خلاف اعلان جنگ ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں قحط، عدم استحکام اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو گی۔ روس کی اناج کی برآمدات میں عارضی تعطل نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے گندم برآمد کنندہ روس نے مارچ کے آخر سے جون کے آخر تک اناج کی برآمدات معطل کر دیں ہیں۔
روس کے سابق صدر اور سینیئر سکیورٹی اہلکار دیمتری میدویدیف نے مغربی پابندیوں کے خلاف جنگ میں خوراک کی برآمدات کو ایک ''خاموش ہتھیار‘‘ قرار دیا۔ ان کا یہ بیان بالواسطہ طور پر بیسلے کے بیانات کی تصدیق کی ہے۔
بحیرہ اسود میں بارودی سرنگیں کون بچھا رہا ہے؟
دعویٰ: اقوام متحدہ میں روس کے سفیر دیمتری پولیانسکی کا کہنا ہے، ''یہ روس نہیں ہے، جو یوکرین کی بندرگاہیں کھولنے سے انکار کر رہا ہے بلکہ یہ یوکرین ہے، جو بحری جہازوں کے محفوظ اخراج کو یقینی بنانے کے لیے بندرگاہوں سے بارودی سرنگیں ہٹانے سے انکار کر رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: یہ ثابت نہیں ہو سکا۔
یوکرین میں جنگ کی وجہ سے بحیرہ اسود اور بحیرہ ازوف میں اہم بندرگاہیں بند ہو چکی ہیں، جس کے نتیجے میں یوکرین سے اناج کی برآمدات میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (آئی ایم او) کو وصول ہونے والے تحریری بیانات میں یوکرین اور روس دونوں نے ہی ایک دوسرے پر زیر آب بارودی سرنگیں بچھانے کا الزام عائد کیا ہے اور اس پیش رفت نے بین الاقوامی جہاز رانی کو مفلوج کر دیا ہے۔
یوکرین کی وزارت انفراسٹرکچر نے 28 اپریل کو برڈیانسک، خیرسون، ماریوپول اور سکاڈوسک کی بندرگاہوں کو ناکافی سکیورٹی کی وجہ سے بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔
اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں روس کے سفیر دیمتری پولیانسکی نے ٹویٹر پر لکھا، ''یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ سکیورٹی کونسل کے کچھ ممبران آج فوڈ سکیورٹی مباحثے میں یوکرینی بندرگاہوں کو کھولنے کے لیے ہم سے اپیل کرتے رہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ یوکرین ہے، جس نے یہ بندرگاہیں بند کی ہیں۔ ہم جہازوں کو محفوظ راستہ دیتے ہیں لیکن یوکرین انکاری ہے۔ یہ کیسی منافقت ہے!‘‘
20 مئی کو ماسکو ٹائمز میں نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک شائع ہونے والی رپورٹ میں فرانسیسی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ روس اور یوکرین دونوں نے بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے پانیوں میں بارودی سرنگیں بچھا رکھی ہیں۔
کیا مغربی پابندیاں قیمتوں میں اضافے کا باعث ہیں؟
دعویٰ: روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے 18 مئی کو ماسکو میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''تجارت، لاجسٹکس، مالیاتی زنجیروں میں خلل اور اس کے نتیجے میں خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ یکطرفہ روس مخالف پابندیوں اور ان میں مزید اضافے کی بے ہودہ دھمکیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: یہ غلط بیانی ہے
مغرب پر ''جھوٹ پھیلانے‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے زاخارووا کا کہنا تھا کہ روس عالمی خوراک کی کمی کا ذمہ دار نہیں ہے۔ زاخارووا نے کہا کہ 2020 کے وسط میں ہی ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے''بائبل دور کے قحط‘‘ کے خطرے سے خبردار کر دیا تھا لیکن روس کے خلاف مغربی پابندیوں نے ان رجحانات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے کریملن کے ان الزامات کو''غلط معلومات کی مہم‘‘ قرار دیا اور مئی کے وسط میں برلن میں جی سیون وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ''اناج اور انسانی امداد کے خلاف کوئی پابندیاں نہیں ہیں۔‘‘ ورلڈ فوڈ پروگرام نے اس کی تصدیق کی ہے۔ اس ادارے کے ترجمان مارٹن رینٹش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''روس سے خوراک کی برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے۔‘‘
تاہم انہوں نے مزید بتایا، ''وہاں سے اناج خریدنا اقتصادی نہیں رہا کیونکہ قیمتیں زیادہ ہیں اور انتظامی رکاوٹیں بڑھ گئی ہیں۔‘‘
کیا یوکرینی اناج کا کوئی متبادل موجود ہے؟
دعویٰ: جرمن ایسٹرن بزنس ایسوسی ایشن میں جرمن ایگری بزنس الائنس کے ڈائریکٹر پیر بروڈرسن کہتے ہیں، ''مثبت خبر یہ ہے کہ دوسرے سپلائرز قدم رکھ سکتے ہیں، اناج کی سپلائی کے خلا کو بظاہر پُر کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک: یہ سچ ہے۔
یوکرین اناج اور تیل کے دنیا کے بڑے پروڈیوسر اور برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور یوکرینی برآمدات گرنے کے پیش نظر دنیا کے غریب ممالک میں قحط کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ اس صورتحال سے عالمی خوراک کے پروگرام کو نئے سپلائرز کی تلاش ہے۔ ڈبلیو ایف پی کے ترجمان مارٹن رینٹش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عالمی مارکیٹ کی قیمتیں بھی بہت زیادہ مسائل کا باعث بن رہی ہیں اور ہماری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حجم کے لحاظ سے یوکرین ہمارا سب سے بڑا ذریعہ خوراک تھا لیکن ہم سپلائی کے دیگر ذرائع تلاش کرنے کے قابل ہیں، مثال کے طور پر انڈیا یا کینیڈا میں۔‘‘
لائبنز انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ڈویلپمنٹ ان ٹرانزیشن اکانومیز (آئی اے ایم او) کا بھی یہی خیال ہے۔ آئی اے ایم او کے ڈائریکٹر تھامس گلوبین لکھتے ہیں، ''بھارت، امریکہ اور آسٹریلیا سمیت دیگر خطوں سے اضافی برآمدات ممکنہ طور پر روس اور یوکرین سے کم رسد کی تلافی کریں گی۔‘‘
جرمن ایگری بزنس الائنس کے ڈائریکٹر پر بروڈرسن کہتے ہیں کہ اناج کی سپلائی کے حوالے سے کئی دیگر کھلاڑی بھی موجود ہیں اور اس کمی کو آسانی سے پُر کیا جا سکتا ہے۔
یہ آرٹیکل جرمن زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
ترجمہ، امتیاز احمد