قائد اعظم یونیورسٹی اور مقامی شناختوں پر فخر کرتے نوجوان
2 جون 2024اس کی نسبتاً آزادانہ اور صنفی و مذہبی تفریق سے پاک فضا ایسا سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جس میں نوجوان مقامی و علاقائی شناختوں سے وابستگی کا بھرپور اظہار کر سکتے ہیں۔
’شناخت کا بحران‘ اور 'پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب‘ کے مصنف احمد اعجاز ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ایک بحث بہت عام تھی کہ پاکستان کا قومی کلچر کیا ہے؟ بہت جلد ایک مخصوص مذہبی رنگ کو ثقافت کے نام پر اپنا لیا گیا اور ہم آج بھی اس سے باہر نہیں آ سکے۔ ایسے میں قائد اعظم یونیورسٹی جیسے اداروں کا وجود غنیمت ہے، جہاں نوجوان مقامی شناختوں اور علاقائی رنگوں پر فخر کرتے ہیں۔ موسیقی، پینٹنگ اور رقص کے ذریعے زمین سے جڑے عام پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے یہاں کے طلبہ و طالبات روشن پاکستان کے لیے امید کی کرن ہیں۔"
یونیورسٹی کی مخصوص فضا میں کوٹہ سسٹم اور لسانی تنظیموں کا کردار
مقامی و علاقائی شناختوں سے سجی قائد اعظم یونیورسٹی کی مخصوص فضا کی تشکیل میں یہاں کی داخلہ پالیسی اور لسانی تنظیمیں کا کردار نہایت اہم ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی پاکستان کی ان چند جامعات میں سے ایک ہے جہاں داخلہ پالیسی میں میرٹ کے بجائے کوٹہ سسٹم غالب ہے۔ یونیورسٹی ویب سائٹ کے مطابق یہاں محض ساڑھے سات فیصد داخلے میرٹ پر جبکہ باقی پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان، سندھ، کشمیر اور گلگت بلتستان کا مختص کوٹہ ہے۔ اس طرح تمام علاقوں سے طلبہ کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع ملتا ہے اور یونیورسٹی کی فضا مقامی ثقافتوں کا حسین امتزاج بن جاتی ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے پختون کونسل کے سابق ممبر اور ایم فل کے سٹوڈنٹ عالم خان کہتے ہیں، ”علاقائی شناخت کا شاید سب سے بڑا ذریعہ زبان ہے۔ اسی لیے اپنے علاقے کی نمائندگی کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ کی تنظیمیں لسانی بنیادوں پر کام کرتی ہیں جنہیں لسانی کونسلز کہا جاتا ہے۔ اس میں پختون، بلوچ، پنجاب، سندھ، سرائیکی، کشمیر اور گلگت بلتستان کونسل شامل ہے۔
تعلیمی اداروں کو تشدد سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
وہ کہتے ہیں،”ہر کونسل کی اپنی کیبنٹ ہوتی ہے جو سالانہ بنیادوں پر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کونسل میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ ان تمام کونسلز کی متفقہ باڈی قائدین سٹوڈنٹس کونسل کہلاتی ہے۔ یونیورسٹی میں کلچرل ایوینٹس کا انعقاد کونسلز ہی کرتی ہیں۔ مثلاً سندھی 'ہولی‘ کا اہتمام کریں گے تو پختون 'نوروز‘ کا۔"
میتھ ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم سید ہادی حسن ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”کونسلز کی کیبنٹ تبدیلی جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ہر کونسل یہ جشن اپنے انداز میں کرتی ہے جسے پنجاب نائٹ یا پختون نائٹ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ پگ وٹائی، گھڑ ڈانس، مقامی گلوکاروں کی آمد، کلچرل ڈانس اور ثقافتی ورثہ کی نمائندگی کرتے سٹالز ماحول کو دیومالائی بنا دیتے ہیں۔ پوری یونیورسٹی مخصوص مقامی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔"
وہ کہتے ہیں، ”کسی ایک کونسل کے فنگشن کا مطلب یہ نہیں کہ محض اس کی زبان بولنے والے طلبہ و طالبات شریک ہوں گے۔ ہرگز نہیں، ایسے مواقع پر سب قائدین ایک خاندان ہوتے ہیں، کسی تعصب کے بغیر سب ایک ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنے کا خوبصورت موقع ہوتا ہے۔"
سریلی آوازیں، رقص و موسیقی
رقص و موسیقی کے پروگرام محض کلچرل نائٹس تک محدود نہیں بلکہ روزانہ اور ہفتہ وار بنیادوں پر اس کی جھلک دکھائی دیتی رہتی ہے۔ سوموار والے دن پختون طلبہ اپنا مشہور رقص 'اتنڑ‘ پیش کرتے ہیں اور ہر جمعے کو سرائیکی 'جھمر‘ پیش کرتے ہیں۔ انہیں دیکھنے کے لیے طلبہ و طالبات کثیر تعداد میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
جامعہ قائد اعظم کی ایک خوبصورتی رباب، گٹار اور ہارمونیم کی گونجتی آوازیں ہیں جو اکثر سنائی دیتی ہیں۔ دن کا کوئی لمحہ ہو یا رات بارہ بجے آپ واک کے لیے نکلیں، کہیں دور سے رباب کی مدھر آواز آ رہی ہو گی۔ رات کی خاموشی میں یہ انتہائی خوبصورت تجربہ ہوتا ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے نام پر شور، معاملہ کیا ہے ؟
اگرچہ یونیورسٹی کی ایک میوزک سوسائٹی ہے مگر اس سے ہٹ کر بھی طلبہ منڈلیوں کی صورت بیٹھے گاتے نظر آتے ہیں۔ لائبریری کے پاس سیڑھیوں پر، ہٹس یا بس پوائنٹ، کہیں بھی تین چار نوجوان بیٹھ گئے اور گانا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گرد پندرہ بیس طلبہ و طالبات جمع ہو گئے جو ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ سردیوں میں اکثر ایسی محفلیں آگ کے گرد اور گرمیوں میں درختوں کے نیچے سجتی ہیں۔
افطاری سے ہولی تک: 'جب کلچر کی بات ہو تو ہندو مسلم کا فرق نہیں دیکھا جاتا‘
قائد اعظم یونیورسٹی میں فرقہ وارانہ یا مذہبی بنیادوں پر تفریق کا کوئی وجود نہیں۔ محرم کی سبیل ہو، رمضان کی افطاری یا ہولی کا ایونٹ تمام طلبہ برابر شریک ہوتے ہیں۔
انگلش ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم دیپک کمار ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ہم دوستوں کے ساتھ افطاری تیار کرتے اور پھر مل کر کھاتے ہیں، محرم میں سبیل لگانا ہمارے کلچر میں شامل ہے، جب کلچر کی بات ہو تو ہندو مسلم کا فرق نہیں دیکھا جاتا، کم از کم قائد اعظم یونیورسٹی تک یہ بات صحیح ہے۔"
سندھ سٹوڈنٹ کونسل کے سابق کلچرل سیکرٹری اور ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم شاہ لطیف ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ہولی کا اہتمام سندھ سٹوڈنٹ کونسل کرتی ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ہندوؤں کا تہوار ہے۔ انہیں ایک بار سندھ میں ضرور آنا چاہیے تاکہ وہ دیکھ سکیں کیسے رنگوں سے کھیلتے ہوئے ہندو مسلم سب ایک ہوتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہماری یونیورسٹی میں اسے کبھی مذہبی منافرت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔"
صنفی تفریق لڑکیوں کی پاؤں کی بیڑی نہیں بنتی
قائد اعظم یونیورسٹی میں ہر سال ہولی بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے، جس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی بھرپور طریقے سے حصہ لیتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے میتھ ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ فاطمہ احمد کہتی ہیں، ”مجھے ہمیشہ فخر محسوس ہوا کہ میں ایسی یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ ہوں جہاں صنفی تفریق لڑکیوں کے پاؤں کی بیڑی نہیں بنتی۔ آپ کو کسی سٹیج پر کچھ کرنے سے اس لیے نہیں روک دیا جاتا کہ آپ تو لڑکی ہیں، آپ یہ کیسے کر سکتی ہیں۔"
پاکستان کی اکثر پبلک یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کا آزادانہ اختلاط انتظامی و سماجی دباؤ کی بنیاد پر ممنوع ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کا ماحول اس کے برعکس ہے۔ طلبہ و طالبات کا ٹولیوں کی صورت گھومنا، لانگ ٹرپس پہ جانا، لائبریری اور کیفے میں بیٹھنا، رقص و موسیقی میں شریک ہونا یہاں کے معمول کا حصہ ہے۔
مزاحمتی کردار: 'جب قائدین ایک خاندان بن جاتے ہیں‘
قائد اعظم یونیورسٹی اپنے مخصوص آزادانہ ماحول کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے جس کا کریڈٹ قائدین سٹوڈنٹس کونسل کے سابق چیئرمین اور یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی سکالر حمزہ اسد کے بقول طلبہ تنظیموں کو جاتا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”بہت بار کوشش کی گئی کہ یونیورسٹی کا ماحول مخصوص ریاستی و مذہبی رنگ میں تبدیل کیا جائے لیکن طلبہ اور کونسلز ڈھال بن جاتی ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے سی ڈی اے سے کسی کو اٹھا کر وی سی لگا دیا گیا، اسی طرح ایچ ای سی نے ہولی منانے کے خلاف نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ ان مواقع پر قائدین ایک خاندان بن جاتے ہیں اور بھرپور مزاحمت کرتے ہیں۔"
قائدین سٹوڈنٹس کونسل کی سابق ممبر اور پی ایچ ڈی سکالر لائبہ بتاتی ہیں، ”یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں کی ثقافتی سرگرمیاں اور آزاد فضا کونسلز کی وجہ سے ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ بہت سے لوگوں کے لیے یونیورسٹی کا روشن خیال تشخص تکلیف دہ ہے، مگر طلبہ اسے ہمیشہ انجوائے کرتے ہیں۔"