قائد حزب اختلاف شہباز شریف گرفتار
5 اکتوبر 2018سابق وزیہر اعلیٰ پنجاب اور اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو نیب پنجاب نے 20 اگست کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر ان کی گرفتاری سے قبل صوبہ پنجاب کی اسمبلی کے اسپیکر سے اجازت بھی طلب کی گئی۔
پاکستان میں بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چند دن پہلے پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک اہم رہنما رانا مشہود کی طرف سے مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت کا جو تاثر دیا گیا تھا، پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی گرفتاری کے ذریعے اس کا جواب دے دیا گیا ہے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا معاملہ بھی مزید الجھ گیا ہے۔
یاد رہے شہباز شریف مسلم لیگ نون میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے حامی دھڑے کے سربراہ تھے۔ شہباز شریف کی گرفتاری ایک ایسے موقع پر عمل میں آئی ہے، جب چند روز بعد پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ اس انتخابی عمل کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد شہباز شریف کو لاہور کے علاقے ٹھوکر نیاز بیگ میں واقع نیب کی عمارت میں رکھا گیا ہے، اس عمارت کے باہر سکیورٹی سخت کردی گئی اور نیب کی عمارت کو پولیس اور رینجرز کے مسلح اہلکاروں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ شہباز شریف جمعے کی شام لاہور میں نیب کے طلب کیے جانے پر پیش ہوئے تھے، اس موقع پر انہیں وارنٹ دکھا کر حراست میں لے لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد شہباز شریف کا طبی معائنہ بھی کیا گیا۔ انہیں ہفتے کی صبح لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کے کارکن نیب کے دفتر کے باہر جمع ہو گئے اور انہوں نے نعرے بازی کی۔ وہ ’ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانے‘، ’میاں تیرے جاں نثار بے شمار بے شمار‘ جیسے نعرے لگاتے رہے۔ اس وقت لاہور میں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف قانونی ماہرین سے تبادلہ خیالات کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی نے اپنے ایک بیان میں شہبازشریف کی گرفتاری کو سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائی قرار دے دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی مخالف پر عبرت کا نشان بنانے کی روش پہلے بھی قوم کا نقصان کرچکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے اپنی زندگی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے وقف کی، چین اور ترکی سمیت جس کو ساری دنیا نے شاباش دی اور اس کی مثال دی، نیب نے اسے گرفتار کرلیا۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے شہباز شریف کی گرفتاری پر کہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف ’زیرو ٹالرنس‘ کی پالیسی ہے اور آنے والوں دنوں میں کئی اور اہم شخصیات کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے شہباز شریف کی گرفتار پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ انہیں کیس کے بارے میں علم نہیں اس لیے وہ کوئی رائے نہیں دے سکتے۔
نیب نے آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کیس میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق پرنسپل سکریٹری فواد حسن فواد کو بھی گرفتار کر رکھا ہے۔
قومی احتساب بیورو کے ایک سابق سینیئر افسر اور دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر(ر) فاروق حمید نے اس سوال کے جواب میں کہ الیکشن سے پہلے صرف نون لیگ کے رہنما کی گرفتاری کہیں سیاسی انتقام تو نہیں ؟ ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آنے والے دنوں میں رانا ثنا اللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ، سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا، خواجہ سعد رفیق، مظفر ٹپی اور پیپلز پارٹی کے کئی دیگر اہم رہنماوں کی گرفتاری بھی عمل میں آنے کا امکان ہے، ’’احتساب کے ادارے الیکش کو نہیں شواہد کی دستیابی کو دیکھتے ہیں، ٹھوس شواہد جب بھی مل جائیں کارروائی ہو جاتی ہے‘‘۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا فواد حسن فواد کے حراست کے دوران دیے گئے بیان پر تفتیش کے مرحلے میں کیس پر شہباز شریف کی گرفتاری انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے ان کا کہنا تھا کہ نیب کو شہباز شریف کے خلاف ٹھوس ثبوت مل گئے ہیں اور لگتا ہے کہ فواد حسن فواد وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ساری کارروائیاں قانون کے مطابق ہو رہی ہیں۔
جب فاروق حمید سے پوچھا گیا کہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے خلاف قتل اور غداری کے جو مقدمات چل رہے ہیں اس میں اتنی تیزی سے پیش رفت کیوں نہیں ہو رہی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کو بھی قانون کا سامنا کرنا چاہیے اور انہیں ملک میں واپس لایا جانا چاہیے۔ فاروق حمید کا کہنا تھا کہ احتساب بلا امتیاز ہی ہونا چاہیے۔