قاتل کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی سیلفیاں
4 اگست 2020چند روز قبل پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور کی ایک عدالت میں توہین مذہب کے ایک مقدمے پر کارروائی جاری تھی، جب خالد نامی ایک شخص نے ملزم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد اس ملزم کو حراست میں لے لیا گیا۔
تاہم گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو گئی جس میں پولیس اہلکار ایک گاڑی میں ملزم کے ساتھ تصاویر بنانے میں مصروف دکھائی دیے۔ اس تصویر میں ملزم مسکرا رہا ہے جب کہ ایک پولیس اہلکار انگوٹھا لہرا کر جشن منانے یا خوشی کا اشارہ رہا ہے۔
اس تصویر کے منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں موجود تقسیم بھی واضح ہے کہ جہاں ایک طرف لوگ اسے ملزم کو قاتل قرار دیتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی مذمت کر رہے ہیں، تو دوسری طرف ایسے افراد بھی موجود ہیں، جو کھلے عام اس قتل کو درست قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں رائے دے رہے ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت جیسے معاملات انتہائی حساس ہیں اور اس انداز کے واقعات مسلسل سامنے آتے رہتے ہیں۔
پشاور میں تاہم اس واقعے کے حوالے سے زیادہ سرگرم بحث کی وجہ وہ ویڈیو بنی جو جائے واقعہ پر بنائی گئی۔ اس میں ایک مشتبہ قاتل واضح انداز سے اس قتل کا اعتراف کر رہا ہے۔ یہ ویڈیو پشتو زبان میں تھی تاہم بعض میں اس پر اردو ترجمہ بھی دیکھا گیا۔
اس ویڈیو میں ملزم بتا رہا ہے کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام اس کے خواب میں آئے اور اس سے کہا کہ توہین رسالت کے ملزم کو قتل کر دیا جائے۔ اس ویڈیو میں یہ قاتل یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ اس قتل کے لیے پستول اسے پیغبر اسلا م نے خود دیا تھا۔
جلاوطن سماجی کارکن گلالئی اسماعیل پولیس کے ساتھ اس ملزم کی تصویر کے ساتھ لکھتی ہیں،''وکلاء کی جانب سے ایک قاتل کے ساتھ تصاویر لینے کے بعد پشاور کی ایلیٹ فورس کے اہلکار بھی توہین مذہب کے معاملے پر پہلے درجے کے قتل میں ملوث ایک مجرم کو ہیرو بنانے میں مصروف ہیں۔‘‘
ایک اور صارف لکھتے ہیں،''پاکستانی اسلام اور مسلمان اس حال کو پہنچ گیا ہے کہ مسجد کے مولوی سے بچے اور ان بچوں سے گھر کے جانور محفوظ نہیں! علم دین، قادری اور خالد غازی نہیں بلکہ خدا اور اس کے رسول کے باغی ہیں، قاتل ہیں۔"
یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت سے متعلق سخت ترین قوانین موجود ہیں۔ پاکستان کے ان متنازعہ قوانین کے تحت کسی بھی شخص کو ایسا کوئی الزام ثابت ہونے پر سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔ لیکن آج تک پاکستان میں ایسے کسی بھی مقدمے میں دی جانے والی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
اس معاملے پر مبینہ قاتل خالد کی حمایت کرنے والے بیشتر افراد کا موقف یہ ہے کہ چوں کہ پاکستان میں عدالتی نظام کم زور ہے اس لیے ایسے واقعات میں قانون ہاتھ میں لیا جاتا ہے، تاہم اس موقف کے مخالفین کا کہنا ہے کہ عدالتوں کی کم زور پر قانون ہاتھ میں لیا جانا ایک شدید طرز کا جرم ہے۔