قانون برائے زنا بالجبر میں ’بڑے نقائص‘ ہیں، جرمن وزیر انصاف
7 جولائی 2016جرمن قانون ساز زنا بالجبر سے متعلق حکومت کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کو منظور کر سکتے ہیں۔ جرمن حکومت کی تجاویز میں سب سے اہم عنصر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ’’نہیں کا مطلب نہیں ہے۔‘‘ یعنی کسی بھی عورت کی مرضی کے بغیر اس کو کسی بھی طرح جنسی طور پر ہراساں کرنا جرم قرار دیا جانا چاہیے۔
جرمنی کی پارلیمنٹ میں یہ ووٹنگ ایک ایسے پس منظر میں ہو رہی ہے جب ملک میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیں یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ جرمن حکومت کو ریپ سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
اِمسال سالِ نو کی تقریبات کے موقع پر جرمن شہر کولون میں کثیر تعداد میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سامنے آئے جس سے عوامی سطح پر بھی یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے۔
اب جرمن حکومت کی پیش کردہ تجاویز میں زنا بالجبر کے لیے وسیع تر تعریف کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ اس میں کسی بھی ایسے جنسی عمل کو جو کہ خاتون کی ’واضح رضامندی‘ کے بغیر کیا جائے گا، ریپ کے زمرے میں آئے گا۔
ریپ سے متعلق جرمنی کے موجودہ قوانین یہ کہتے ہیں کہ جنسی عمل کو اس وقت زنا بالجبر قرار دیا جائے گا جب اس کا شکار ہونے والا شخص کسی پر تشدد حرکت کے خلاف جسمانی طور پر رد عمل کا مظاہرہ بھی کرے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ان خواتین کو تحفظ فراہم نہیں کرتا جو کہ اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ ہوں یا پھر انہیں تشدد کے بغیر ہی کسی دوسرے طریقے سے جنسی عمل کا نشانہ بنایا جائے۔
جرمن وزیر انصاف ماس کا کہنا ہے کہ نیا قانونی مسودہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں ایک سنگ میل اور اہم قدم ہوگا۔
وہ مزید کہتے ہیں، ’’جب زنا بالجبر کا ارتکاب کرنے والوں کو قانونی سقم کی وجہ سے سزا نہیں ہوتی تو یہ ریپ کا نشانہ بننے والوں کے لیے دوسری بڑی ذلت ہوتی ہے۔‘‘
ماس نے امید ظاہر کی کہ نئے قانون سے اس کا ازالہ کیا جا سکے گا۔