قبائلی ایجنسیوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیا جائے گا
25 اگست 2016قبائلی علاقوں کی آبادی تقریباﹰ ایک کروڑ بتائی جاتی ہے، جہاں 1901ء سے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کے نام سے قوانین رائج ہیں۔ اب تک قبائلی عوام کا سب بڑا مطالبہ ان قوانین کا خاتمہ اور ملک بھر میں رائج دیگر قوانین پر مشتمل نظام کا نفاذ رہا ہے۔
پاکستان کی تقریباﹰ تمام سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جائے اور وہاں کے عوام کو بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح منتخب اسمبلی میں نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی کے بارے میں فیصلہ کرسکیں۔
موجودہ حکومت نے وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک اصلاحاتی کمیٹی بنائی تھی، جس نے تمام قبائلی ایجنسیوں کے دورے کر کے عوامی رائے سُنی اور وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کی۔
اس رپورٹ کے مطابق قبائلیوں کی اکثریت ایجنسیوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حق میں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لئے ابتدائی طور پر ستر ارب روپے مختص کئے جائیں گے جبکہ قومی مالیاتی ایوارڈ میں اس کا حصہ تین سے چار فیصد رکھا جائے گا اور سکیورٹی کے لئے بیس ہزار جوان بھرتی کیے جائیں گے۔
جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے معروف قانون دان اور قومی اسمبلی کے سابق رکن لطیف آفریدی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’قبائلی علاقے جغرافیائی، معاشی،معاشرتی، سیاسی اور سماجی لحاظ سے صوبے کا حصہ ہیں۔ ایسے میں یہ علاقے صوبے کا حصہ بنیں گے تو ان لوگوں کو ان کے حقوق بھی ملیں گے اور ان کے منتخب کردہ نمائندے علاقے کے عوام کے حقوق کے لئے آواز بھی اٹھا سکیں گے۔ سالانہ بجٹ میں ہر ایجنسی کے لئے بجٹ مختص ہوگا۔ انہیں ایک حیثیت ملے گی اور اس کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو ملے گا۔ اگر اس کے برعکس قبائلی علاقوں کو الگ صوبہ بنایا جاتا ہے تو اس کے لئے ایک ہزار ارب روپے کی ضرورت پڑے گی۔ پاکستان ان حالات میں اتنے اخراجات برداشت نہیں کر سکے گا اور اس کے مثبت نتائج کے امکانات بھی کم ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام پختون سیاسی جماعتوں کا بھی یہی ایک مطالبہ رہا ہے کہ پختونخوا اور قبائلی علاقوں کو متحد ہونا چاہیے۔‘‘
اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے جنوبی وزیر ستان کے رہنما اشرف داوڑ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’قبائلی عوام ستر سال سے محرومیوں کا شکار ہیں۔ اب اگر حکومت نے اسے خیبر پختونخوا میں ضم کیا تو ان لوگوں کو بھی صحت، تعلیم اور ملک کے دیگر علاقوں کی طرح بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ سب سے اہم بات قبائلی عوام کے لیے انصاف کی فراہمی ہے۔ ایف سی آر کے قوانین کی موجودگی میں قبائلی اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ اس انضمام سے قبائلی علاقوں میں امن آئے گا اور خاص طور پر وہ قبائلی سرمایہ کار اور صنعت کار، جنہوں نے دیگر صوبوں اور شہروں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے، یہاں بھی کارخانے لگاسکیں گے۔ اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں گے، تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا، جس سے عوامی شعور میں اضافہ ہو گا۔‘‘
خیبر ایجنسی کے معروف سماجی کارکن حسین احمد آفرید ی سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا، ’’ستر سال میں حکومتیں تمام قبائلی ایجنسیوں کو ایک سڑک کے ذریعے ملا نہ سکیں۔ ہر ایجنسی کی سرحدیں پختونخوا کے کسی نہ کسی شہر سے لگتی ہیں جبکہ تعلیم، صحت اور روزگار کا دارومدار بھی خیبر پختونخوا پر ہے۔ ایسے میں اگر قبائلی علاقوں کو پختونخوا میں ضم کیا گیا تو اس کے عوام کو بے پناہ فوائد ملیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ قبائلی علاقوں کو پختونخوا کا حصہ بنایا جائے اور انہیں صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے تاکہ یہ لوگ بھی اپنے حق کے لئے آواز اٹھا سکیں۔