قبائلی علاقوں کی اقلیتوں کو ڈومیسائل کا حق دے دیا گیا
13 اپریل 2015اس طرح قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر ہزاروں افراد کو تعلیم اداروں میں داخلہ لینے اور سرکاری محکموں میں ملازمت حاصل کرنے کے علاوہ جائیداد کی خرید و فرخت کا حق حاصل ہو گیا ہے۔
پاکستان کی سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ فرنٹیر ریجنز (نیم قبائلی علاقوں) کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ اکثریتی مسلمان آبادی کے علاوہ یہاں ہندو، سکھ اور مسیحی بھی آباد ہیں۔ حکومتی اندازوں کے مطابق ان علاقوں میں سب سے زیادہ مسیحی آباد ہیں جن کی تعداد 17 ہزار کے قریب ہے۔ دوسرے نمبر پر ہندو ہیں جن کی آبادی سات ہزار دو سو کے قریب ہے جبکہ سکھوں کی تعداد تین ہزار ایک سو ہے۔ قبائلی علاقوں میں خیبر ایجنسی، شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان ،کرم ایجنسی، اوکرزئی ایجنسی، مومند ایجنسی اورباجوڑ شامل ہیں۔
آل ہندو رائٹس موومنٹ پاکستان کے چیئرمین ہارون سرب دیال سے جب ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے انہوں نےکہا، ’’یہ فیصلہ ہمارے لیے اُمید کی کرن ہے۔ ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ حکومت نےہم پر اعتماد کا پہلا قدم اٹھایا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اقلیتی برادری بھی پاکستانی ہے اور اس ملک کی آزادی میں انہوں نے بھی قربانیاں دی ہیں اور اس ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت انہیں ایک جیسے حقوق کی فراہمی کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائے۔‘‘
قبائلی علاقوں میں رائج نظام 115 سال پرانا ہے جبکہ یہاں مقیم سکھوں اور کرسچین نے اس سے قبل یہاں رہائش اختیار کی تھی۔ سکھ ان علاقوں پر سکھوں کی حکمرانی کے دور میں جبکہ مسیحی برطانوی دور حکومت کے دوران یہاں آئے تھے۔ اسی طرح متحدہ ہندوستان کے وقت ایک بڑی تعداد میں ہندو افغانستان سمیت دیگر علاقوں سے یہاں آکر آباد ہوئے۔
قبائلی علاقوں سمیت افغانستان میں چار دہایئوں پر محیط جنگ اور دہشت گردی میں اقلتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ بدامنی کی وجہ سے ان علاقوں سے سینکڑوں خاندانوں نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کا رخ کیا اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ امن قائم ہو اور وہ اپنے علاقوں میں جا سکیں۔
قبائلی علاقوں میں رائج قوانین کی رُو سے پولیٹیکل ایجنٹ تب کسی کو ڈومیسائل بنانے کی اجازات دیتا ہے جب اس کے قبیلے کا سربراہ (ملک) اسکی سفارش کرے۔ لیکن یہاں مقیم اقلیتی برادری کا کسی بھی مقامی قبیلے سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ 67 سال تک اس حق سے محروم رکھے گئے۔
خیبر پختونخوا کے اقلیتی اُمور کے صوبائی وزیر سورن سنگھ کا کہنا ہے، ’’ایک طویل عرصے سے اس خطے میں رہائش پذیر اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ آج کا یہ فیصلہ خوش آئند اور اس سلسلے میں پہلا قدم ہے۔ یہ ان لوگوں کا بنیادی حق ہے جس سے انہیں طویل عرصے تک محروم رکھا گیا لیکن ہماری کوشش ہے کہ قبائلی علاقوں میں مقیم اقلیتی برادری کو ان کے تمام حقوق ملیں اور قبائلی علاقوں کو ملک کے دوسرے حصوں کے برابر لایا جائے۔‘‘
قبائلی علاقوں میں برٹش دور کے قوانین لاگو ہیں جس کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کو کافی زیادہ اختیارات حاصل ہیں تاہم خیبر پختونخوا کے گورنر نے آتے ہی ان قوانین میں ترامیم کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ہے تاکہ قبائلی عوام کو یکسان سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ قبائلی علاقوں کے فیصلے پولیٹیکل ایجنٹ یا پھر علاقائی جرگوں کے ذریعے ہوتے ہیں تاہم اب قبائلی عوام خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی یا پھر الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ اپنے علاقے کے مسائل کے لیے آواز اٹھاسکیں۔