1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قتل عام فوج نے نہیں کیا، میانمار کی کٹھ پتلی حکومت

10 دسمبر 2021

میانمار میں فوجی جنتا کی طرف سے بنائی گئی حکومت نے گیارہ افراد کے قتل عام کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور جعلی قرار دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/445tm
Indien 13 Zivilisten von indischen Sicherheitskräften in Nagaland getötet
تصویر: Yirmiyan Arthur/AP Photo/picture alliance

ایسی خبریں میڈیا میں رپورٹ ہوئی ہیں کہ میانمار کی فوج نے ملک کے شمال مغرب میں گیارہ افراد کو لائن میں کھڑا کر کے ہلاک کیا ہے۔ ان افراد کی پھٹی کٹی لاشیں بعد ازاں مقامی دیہاتیوں نے دریافت کی تھیں۔ قتل عام کے اس مبینہ واقعے پر عالمی برداری کی طرف سے سخت تنقید کی گئی تھی جبکہ ملک کی کٹھ پتلی حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اس واقعے کی مکمل چھان بین کرے۔

جمعے کے دن سرکاری اخبار گلوبل نیو لائٹ نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ حقائق کو کچل کر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ یہ قتل عام ملکی فورسز نے کیا ہے۔ ایک ایسی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، جس میں ہلاک شدگان کی مسخ شدہ لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

گلوبل نیو لائٹ کے آرٹیکل کے مطابق ابتدائی تفتیش سے ثابت ہو چکا ہے کہ شیئر کی جانے والی ویڈیوز کا ملکی فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ پراپیگنڈا دراصل ملکی فورسز کی ساکھ کو تباہ کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ تاہم فوج نواز اس اخبار میں شائع ہونے والے اس آرٹیکل میں ان ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔  

اس آرٹیکل میں مزید لکھا گیا کہ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جانے والی یہ ویڈیو دراصل مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی ایک سازش ہے۔ اس ویڈیو کے ساتھ کچھ تصاویر بھی شیئر کی جا رہی ہیں، جو مبینہ طور پر ساگاینگ ریجن کے ڈون ٹاوو نامی گاؤں کی بتائی جا رہی ہیں۔

فوجی جنتا کا کریک ڈاؤن

کہا جا رہا ہے کہ یہ امیجز اس  قتل عام کے کچھ دیر بعد ہی بنائے گئے تھے۔ مقامی لوگوں کے مطابق پہلے ان افراد کو بے دری سے ہلاک کیا گیا اور بعد ازاں لاشوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔

میانمار میں آزاد میڈیا پر فوجی حکومت کی طرف سے کریک ڈاؤن کیا جاتا رہا ہے، اس لیے ایسے غیرجانبدار ادارے چھپ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ایسے میڈیا کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ گیارہ افراد کا قتل عام دراصل ملکی فورسز کی طرف سے ایک جوابی کارروائی تھی کیونکہ اس علاقے کے ایک مقامی مسلح گروپ پیپلز ڈیفنس فورس نے ملکی فوج کے کچھ اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔

میانمار کی فوج کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں کی تاریخ کافی پرانی ہے جبکہ ماضی میں زیادہ تر واقعات میں اس کے کریک ڈاؤن کا نشانہ اقلیتی گروہ بنتے تھے تاہم فروری میں آنگ سان سوچی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کے بعد فوجی جنتا اپنے ہر قسم کے مخالف کے خلاف کارروائی سے گریز نہیں کر رہی ہے۔

میانمار میں فوج مخالف عوامی مظاہروں کے شروع ہونے کے بعد ملک میں ایک سیاسی بحران بھی دیکھا گیا، جس کا فائدہ کئی چھوٹے موٹے باغی گروہوں نے بھی اٹھایا۔ ایسے جنگجو گروہوں نے اپنے حملوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔ اس صورتحال میں فوجی جنتا اپنے سیاسی مخالفین کو بھی دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کرنے میں گریز نہیں کر رہی ہے۔

ع ب، ع آ (خبرساں ادارے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید