قتل عام کی 20ویں سالگرہ، چینی حکومت پر تنقید
15 مئی 2009چینی حکومت اور سرکاری میڈیا اس بارے میں خاموشی اختیار کر کے اس موضوع کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Prisoner of the State:The secret Journal of Premier Zhao Ziyang کے عنوان سے چھپنے والی اس کتاب کا زکر گرچہ نہ تو اسٹیٹ میڈیا نہ ہی سرکاری ویب سائٹس پر کہیں ملتا ہے تاہم اس کے بارے میں آرٹیکل انگریزی زبان کی نیوز ویب سائٹس پر موجود ہیں جبکہ چینی زبان میں اس کی آڈیو فائلز اور اس بارے میں انگریزی خبریں نیو یارک ٹائمزاورواشنگٹن پوسٹ کی ویب سائٹس پر قابل رسائی ہیں۔
Zhao Ziyang چین کے سابق وزیر اعظم اور کمیونسٹ پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل تھے۔ 20 سال قبل ایک جمہوری تحریک کو چینی فوج نے بہیمانہ طریقے سے کچلا تھا۔ یہ تاریخی واقعہ بیجنگ کے معروف Peace Square Tiananmen یا امن اسکوائر میں پیش آیا تھا ۔ اس وقت کے وزیر اعظم Zhao Ziyang نے جمہوریت کی جدوجہد کرنے والے مظاہرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا جس کے نتیجے میں انہیں برطرف کردیا گیا تھا۔ 20 سال بعد Zhao Ziyang کے آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئے ہیں جن میں وہ اس واقعہ کے بارے کہتے ہیں:
"طلبا تحریک کو سازش کی منصوبہ بندی قرار دیا گیا ، اسے کمیونسٹ پارٹی اور سوشلسٹ موومنٹ کے خلاف بغاوت کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔ 4 جون کے اس واقع کے دوران طلبا نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی بلکہ جب چند لوگوں کی طرف سے ایک آدھ فوجیوں پر حملہ ہوا تو طلبا نے فوجیوں کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ یقینا مٹھی بھر مظاہرین مشتعل ہو کر تشدد پر اتر آئے تھے ،تاہم یہ چند لوگ مظاہرہ کرنے والی اکثریت اور طلبا کے نمائندے نہیں تھے۔"
اس آڈیو ریکارڈنگ کی مدد سے Zhao Ziyang کی یاداشتیں قلم بند کی گئی ہیں۔ یہ ٹیپس Zhao Ziyang کے ساتھیوں نے خفیہ طور پر غیر ملکوں میں پہنچائی تھیں۔ Zhao Ziyan نے چین میں اصلاحات کے لئے، بیوروکریسی کے خاتمے اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ انھیں چین میں جمہوریت کی تحریک کی ایک نمونہ سیاسی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے:"1989 میں 3 اور 4 جون کی درمیانی شب کو میں اپنی فیملی کے ساتھ گارڈن میں بیٹھ کر ٹھنڈی پرسرور فضا سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ یک دم دور سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔ اس وقت میں سمجھ گیا کہ کوئی ایسا المیہ رونما ہوا ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔"
چینی حکومت نے تمام تر کوششیں کی ہیں کہ لوگ 4 جون کے اس قتل عام کو بھلا دیں ۔ چین میں اسکول کی کتابوں میں یہ واقعہ درج نہیں ہے۔ تاہم بہت سے باشندے جو اس وقت وہاں موجود تھے، انکے ازہان پر اب تک اس واقعے کی بھیانک یادیں موجود ہیں اور وہ اس کا زکر سنتے ہی پھر سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ Zhao Ziyang چار سال قبل اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان کی موت تک انہیں بیجنگ میں انکے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔