1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قتل و غارت کی سیاست کرنے والے قبول نہیں، مولانا فضل الرحمٰن

7 دسمبر 2012

جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کے کئی چہرے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں انہوں نے کہا کہ قتل و غارت کی سیاست کرنے والے قبول نہیں۔

https://p.dw.com/p/16xWI
تصویر: Abdul Sabooh

 ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی صدر بارا ک اوباما کے پاس دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنی جماعت کی پالیسیوں کے مطابق حکومت کرنے کا زیادہ موقع ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ دس سال تک امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی اپنائی ہوئی تھی لیکن اس کے نتیجے میں اسے بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور اب معاملات افہام و تفہیم سے چلانے کی پالیسی کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے طالبان سے مذاکرات ہورہے ہیں اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت سیاسی مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل میں شامل رہی ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ابتدائی سالوں میں افغانستان کی سرحد سے ملحق صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت کر چکی ہے۔

Präsident Barack Obama Thailand Besuch Don Muang Flughafen
امریکی صدر باراک اوباماتصویر: Reuters

انہوں نے کہا کہ باراک اوباما کے پہلے دَور حکومت میں امریکا کے نقطہء نظر میں مسلسل ابہام نظر آیا، جہاں وائٹ ہاﺅس کچھ کہتا تھا، سی آئی اے کچھ اور، اور پینٹاگون کا مؤقف بالکل الگ نظر آتا تھا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اب باراک اوباما ایک مرتبہ  پھر منتخب ہوگئے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ بلیک میل نہیں ہوں گے اور نظام حکومت میں ان کی جماعت کی زیادہ مرضی چل سکے گی۔
ایک دور تک طالبان کی حمایت کرنے والے مولانا فضل الرحمٰن اب کہتے ہیں کہ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے والے کئی چہرے بنا لیتے ہیں اور قتل و غارت جس کی سیاست ہو وہ انہیں قابلِ قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلحے کے ساتھ داڑھی اور پگڑی والا بھی لڑتا ہے تو وہ اس سے لاتعلق ہیں اور اگر کوئی جینز پہن کر لڑتا ہے تو وہ اس سے بھی لاتعلق ہیں۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنی سیاست بین الاقوامی سطح پر لے کر جانی ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ متحدہ مجلسِ عمل کے دور میں یہی صورتحال تھی۔ لیکن ان کے کئی اتحادی اس سیاست سے دور ہو گئے۔ جماعت ِ اسلامی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے وہ عوامی مقبولیت کھو چکی ہے۔ آج بھی مذہبی سیاسی جماعتوں میں جے یو آئی کی ایک بڑی حیثیت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے زمانے میں منبر سے فرقہ وارانہ سیاست نہیں، بین الاقوامی معاملات پر بات شروع ہوئی۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دینے میں خفیہ اداروں کا ہاتھ ہے جو ان تنظیموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بدامنی ، افراتفری، اور دہشت گردی کی بڑی وجہ نظریاتی سیاست کا خاتمہ اور لسانی اور فرقہ وارانہ سیاست کا فروغ ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب متحدہ مجلسِ عمل فعال تھی تو کسی فرقہ پرست تنظیم کو سر اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔
ان  کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سابق صدر پرویز مشرف کے دور سے زیادہ بری ہے کیونکہ آج فوج اور عوام براہ راست مدمقابل ہیں جبکہ مشرف دور میں ایسا نہیں تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن ایک عرصے سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حیثیت سے انہوں نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کمیٹیاں صرف سفارشات پیش کر سکتی ہیں، عمل کرنا حکومت کا کام ہے اور وہ حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔

Pakistan Karatschi Interview Maulana Fazlur Rehman
مولانا فصل رحمٰن ڈی ڈبلیو سے گفتگو کر رہے ہیںتصویر: DW/R. Saeed

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: ندیم گِل