’قتل کی دھمکیوں سے ڈرنے والی نہیں‘، بھارتی خاتون امام مسجد
29 جنوری 2018چونتیس سالہ امام مسجد جامدہ کا تعلق ریاست کے شمالی ضلع کولّم سے ہے جس کی تقریبا ستّر فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ جامدہ، ’قرآن سنّت سوسائٹی‘ نامی ایک مسلم تنظیم کی جنرل سیکرٹری ہیں۔ اسی چھوٹے سے قصبے میں انھوں نے سوسائٹی کی مسجد میں نماز پڑھائی۔
اس سے قبل اس مسجد میں تنظیم کے ایک سینیئر رکن مولوی عبد العزیز امامت کیا کرتے تھے۔ باور کیا جاتا ہے کہ بھارت کی وہ ایسی پہلی خاتون ہیں جنھوں نے جمعہ کی نماز سے پہلے حسب معمول خطبہ دیا اور نماز کی قیادت کی۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں درجنوں مقامی مرد و خواتین شامل ہیں۔
ڈنمارک میں خواتین کی پہلی مسجد کا افتتاح
چونکہ اس علاقے میں مختلف مکاتب فکر کی الگ الگ مساجد ہیں اور ایک دوسرے سے کسی کو سروکار نہیں اس لیے ابتدا میں ان کے اس عمل پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا تاہم جب خبر پھیلی تو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف شدید نکتہ چینی ہونے لگی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں جامدہ ٹیچر نے کہا۔’’ ونڈور میں تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت ہے اور لوگ آزاد خیال ہیں اس لیے مقامی سطح پر انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم سوشل میڈیا پر ہمیں طرح طرح کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا،’’مسلم کمیونٹی ان مذہبی علماء کے ماتحت ہے جو ترقی پسند فکر کی مخالف ہے۔ وہ کسی بھی طرح کی تبدیلی کے خلاف ہیں۔ قرآن نے احکامات جاری کرتے وقت کہیں بھی مرد و خواتین کے درمیان تفریق نہیں برتی، وہ کہیں مسلمان کے لقب سے مخاطب کرتا ہے اور کبھی ایمان والے کہتا ہے۔ لیکن اسلام اب ایک ایسا مذہب بن گیا ہے جس میں خواتین کو دبایا جاتا ہے اور میں نماز کی قیادت کر کے اسی طرح کے تاثرات اور روایات کو توڑنا چاہتی ہوں۔‘
انھوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ انھیں کئی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن وہ ڈرنے والی نہیں ہیں اور اس مشن کو جاری رکھیں گی۔ جمعے کے روز سے ہی مقامی میڈیا میں ان کے زبردست تذکرے ہیں اور اب تک وہ کئی ٹی وی چینلز کو انٹرویو بھی دے چکی ہیں۔
’قران سنت سوسائٹی‘ کا کہنا ہے کہ صرف مرد ہی اسلام کے مالک نہیں بن سکتے اور خواتین کو بھی اس امر میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ تنظیم کے ایک سینیئر رکن ایم ایس رشید کا کہنا تھا،’’ ہم نے اس بارے میں تفصیلی بات چیت کا آغاز پانچ چھ ماہ پہلے ہی کر دیا تھا۔اس بارے میں لوگوں کی مختلف آرا تھیں لیکن ہمارے مباحثے کا محور صرف قرآن پر مبنی تھا اور اس طرح ہم نے سبھی کو راضی کر لیا۔ توجہ اس بات پر نہیں ہونی چاہیے کہ مکتبِ فکر کیا ہے بلکہ اس بات پر کہ قرآن کیا کہتا ہے اور قرآن میں تو کہیں بھی عورت کو جمعے کی نماز کی امات سے منع نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
’میں نے تو رمشاء کی جان بچائی‘ امام مسجد
جنوبی ریاست کیرالا کا شمار بھارت کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ پائے جاتے ہیں، یہاں پچیس فیصد سے بھی زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ دوسری ریاستوں کے مقابلے میں مالی اعبتار سے بھی اس ریاست کے مسلمانوں کی حالت بہتر ہے جہاں ان کی بہت سی علاقائی تنظیمیں بھی سرگرم ہیں۔
اس بارے میں ایک سنی تنظیم کے سرکردہ رکن نظر فیضی کا کہنا تھا کہ یہ شاذ و نادر قسم کا ایک واقعہ ہے جس پر خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔ مذہب اس کی قطعی حمایت نہیں کرتا۔ کمیونٹی کے لیڈران اور دانشوروں کو اس طرح کے واقعات کو نظرانداز کر دینا چاہیے۔ ہم تو اس طرح کی حرکت پر بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔‘‘
جامدہ خواتین کے حقوق، جیسے تین طلاق وغیرہ، کے لیے بھی پہلے سے ہی آواز اٹھاتی رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سفر آسان نہیں رہا ہے۔ چند برس پہلے جب وہ ریاستی دارالحکومت ترواننتپورم میں تھیں تو ان کے ایسے ہی نظریات اور سرگرمیوں کے لیے بعض مسلم گروپوں نے انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ سنہ دو ہزار سولہ میں اسی کی وجہ سے انھیں شہر چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے بعد قرآن سنت سوسائٹی نے انھیں دعوت دی اور تب سے وہ اسی کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ اب وہ اس کی سکریٹری ہیں۔