قذافی نائجر جانے والے قافلے میں نہیں ہیں، امریکہ
7 ستمبر 2011پیر کے روز لیبیا سے سویلین اور فوجی گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ افریقی ملک نائجر میں داخل ہوا تھا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس قافلے میں لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی بھی موجود ہیں۔ تاہم امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس قافلے میں قذافی کی موجودگی کی تردید کی ہے۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ کا کہنا تھا، ’’معزول حکومت کے سینئر عہدیدار قافلے میں موجود تھے۔ ہمارا خیال ہے کہ قذافی ان میں شامل نہیں تھے۔ ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ قذافی لیبیا کے علاوہ کہیں پائے جاتے ہیں۔‘‘ ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس قذافی کے خاندان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
امریکی حکومت نے نائجر پر زور دیا ہے کہ وہ لیبیا کے سابق عہدیداروں کو گرفتار کرے کیوں کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں کو مطلوب ہیں۔ ’’ہم نائجر کے حکام سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قافلے میں موجود لیبیا کی معزول حکومت کے عہدیداروں کو گرفتار کرے اور ان کے پاس موجود اسلحے کو اپنے قبضے میں لے۔ اس کے علاوہ اگر ان کے پاس نقد رقم اور زیورات ہیں تو وہ ان کو بھی اپنے قبضے میں لے کیوں کہ یہ لیبیا کے عوام کی ملکیت ہیں۔‘‘
امریکی اسٹیٹٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان نے نائجر کی حکومت پر زور دیا کہ وہ لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے ساتھ اس حوالے سے تعاون کرے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز خبر رساں ادارے روئٹرز نے فرانسیسی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ ممکنہ طور پر لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی اور سیف الاسلام قذافی بھی اس قافلے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دو سو سے ڈھائی سو گاڑیوں پر مشتمل لیبیا کے فوجیوں کے ہمراہ ایک بڑا قافلہ نائیجر میں داخل ہوا تھا۔ اس میں جنوبی لیبیا کی فوج کے افسران بھی موجود تھے۔ ذرائع کے مطابق یہ قافلہ لیبیا سے الجزائر کے راستے نائیجر میں داخل ہوا اور ممکنہ طور پر اس قافلے کی منزل برکینا فاسو تھی۔ اس سے قبل برکینا فاسو نے معمر قذافی اور ان کے اہل خانہ کو سیاسی پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد