قذافی پر پابندیاں عائد کرنے پر سلامتی کونسل میں اتفاق
27 فروری 2011ہفتے کو رات گئے سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی، جس کے مطابق معمر قذافی کے خلاف خون خرابے کے الزامات کے تحت تحقیقات کروانے پر بھی اتفاق کر لیا گیا ہے۔
سلامتی کونسل کے 15 رکن ممالک کے نمائندوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب لیبیا کی حکومت اسلحہ بھی نہیں خرید سکتی ہے۔ لیبیا میں 15 فروری سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پر ریاستی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں وہاں کم ازکم ایک ہزار افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
طرابلس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وہاں سکیورٹی فورسز مظاہرین کے خلاف طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے، جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کر رہی ہیں۔ لیبیا کے اس بحران کے بعد وہاں سے واپس آنے والے کئی غیر ملکیوں نے بتایا ہے کہ بالخصوص طرابلس میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔
اس صورتحال میں منعقد کیے گئے سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں معمر قذافی سے پر زور مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے عوام کے خلاف طاقت کا ناجائز استعمال فوری طور پر ترک کر دیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 68 سالہ قذافی سمیت ان کے سات بیٹوں اور ایک بیٹی عائشہ کے علاوہ کل سولہ افراد کی فہرست تیار کی گئی ہے، جن پر سفری پابندیاں عائد کرنے اور ان کے اثاثے منجمد کرنے پر اتفاق رائے ہوا ہے۔ اس فہرست میں قذافی کے ان قریبی ساتھیوں کا نام بھی شامل ہے، جو لیبیا کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ ابتداء میں کُل22 ناموں پر بحث کی گئی تاہم سلامتی کونسل نے مذاکرات اور بحث کے بعد 16 افراد پر پابندیاں عائد کرنے پر اتفاق کیا۔ سلامتی کونسل کے اس خصوصی اجلاس میں لیبیا میں ہونے والے خون خرابے کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت ICC کی خدمات لینے پر بھی اتفاق ہوا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ لیبیا میں عوام کے خلاف بڑے پیمانے کیا جانے والا ظلم و ستم انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں بھی آ سکتا ہے، اس لیے اس کی تحقیقات ضروری ہیں۔
عالمی رہنماؤں نے قذافی پر زور دیا ہے کہ وہ لیبیا میں غیر ملکیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ وہاں امدادی سامان کی ترسیل ممکن بنانے کے لیے بھی مناسب اقدامات کریں، جبکہ صورتحال کی اصل نوعیت جاننے کے لیے غیر جانبدار مبصرین کو لیبیا میں داخل ہونے کی اجازت بھی دی جائے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان