قذافی کی ہلاکت: عالمی رہنماؤں کا ردِ عمل
21 اکتوبر 2011امریکی صدر باراک اوباما نے لیبیا میں بین الاقوامی ملٹری آپریشن کو سراہا اور کہا: ’’ہم نے بالکل وہی کیا، جیسا کہ ہم نے کہا تھا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ لیبیا کے باغیوں کی حمایت میں نیٹو کی قیادت میں شروع ہونے والے آپریشن، جس میں متعدد عرب ریاستیں بھی شامل تھیں، سے کثیرالجہتی آپریشن کی بھرپور استعداد ظاہر ہوتی ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ قذافی کی موت سے نئے، پرامن اور سیاسی آغاز کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ انہوں نے لیبیا میں اقتدار کی جمہوریت کی جانب منتقلی پر زور دیا اور اس سلسلے میں جرمن امداد کا یقین دلایا۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اسے لیبیا کے جمہوری مستقبل کے لیے ایک موقع قرار دیا۔ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے کہا کہ لیبیا میں آٹھ ماہ سے زائد عرصے سے لڑی جانے والی جنگ میں یہ ایک بڑی پیش قدمی ہے۔
نیٹو کے سربراہ آندرس فوگ راسموسن نے کہا کہ اب لیبیا کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ یہ لببیا میں ’تاریخی منتقلی‘ کی جانب قدم ہے۔
دوسری جانب وینزویلا کے صدر اوگو چاویز نے قذافی کی ہلاکت پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قذافی شہید ہوئے ہیں۔ چاویز نے کہا کہ انہیں قتل کر دیا گیا ہے اور یہ ایک اور اشتعال انگیزی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہمیں تمام عمر قذافی کو عظیم فائٹر، انقلابی اور شہید کے طور پر یاد رکھنا چاہیے۔‘‘
آسٹریلوی وزیر اعظم جولیا گیلارڈ نے قذافی کی ہلاکت کے ردِ عمل میں لیبیا کی نئی قیادت کو امن اور استحکام کی جانب بڑھنے کے لیے مدد کی پیش کش کی ہے۔ انہوں نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا: ’’آج لیبیا میں آزادی کی طویل جنگ اختتام کو پہنچی ہے اور آسٹریلیا اس دِن کو لیبیا میں سُکھ کے حوالے سے تسلیم کرتا ہے۔‘‘
شدت پسندوں کی ویب سائٹوں کو مانیٹر کرنے والے امریکی ادارے سائٹ کے مطابق انتہا پسندوں نے بھی قذافی کی ہلاکت پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عرب حکمرانوں کو خبردار کیا ہے کہ اب ان کی باری آ سکتی ہے۔
برطانوی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ قذافی کی ہلاکت ایک فتح ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے آمروں کے لیے انتباہ بھی ہے، لیکن لیبیا کے مستقبل کے بارے میں تشویش باقی ہے۔
’دی ٹائمز‘ نے اپنے اداریے میں ’لیبیا کے عوام کی بہادری‘ کو سراہا ہے۔ ’دی سَن‘ نے قذافی کی ہلاکت کو لاکربی سے جوڑا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی