قرآن اور گائے کے گوشت سے متعلق بی جے پی کے دعوے پر تنازعہ
9 ستمبر 2015بھارت کی مغربی ریاست گجرات میں احمد آباد سے بدھ نو ستمبر کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملک کی ہندو اکثریت کی طرف سے اپنے لیے مقدس جانور گائے کے تحفظ کے لیے کی جانے والی اس تازہ ترین لیکن متنازعہ کوشش کے بعد نہ صرف بھارتی مسلمان شدید ناراض ہیں بلکہ ایک سرکردہ ملسمان رہنما نے مذمت کرتے ہوئے یہ تنبیہ بھی کر دی ہے کہ ایسے دعوے نئی مذہبی بدامنی کی وجہ بن سکتے ہیں۔
ریاست گجرات میں، جہاں موجودہ ملکی وزیر اعظم ماضی میں کئی برسوں تک وزیر اعلٰی رہ چکے ہیں اور اب بھی مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یا بی جے پی کی حکومت ہے، ریاستی حکومت نے کئی مقامات پر تشہیر کے لیے ایسے بل بورڈز لگا دیے ہیں، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن میں ایک آیت کی صورت میں مبینہ طور پر یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ گائے کا گوشت کھانے سے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق بھارت میں ہندو انتہا پسند گروپ طویل عرصے سے یہ کوششیں کر رہے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانے پر پورے ملک میں پابندی عائد کی جانا چاہیے کیونکہ گائے ہندوؤں کے لیے ایک مقدس جانور ہے۔ کھانے کے طور پر گوشت کے لیے گائے کے استعمال کے خلاف کٹر ہندوؤں کی اس مہم میں اس وقت سے خاصی تیزی آ گئی ہے، جب سے گزشتہ برس مئی میں عام انتخابات کے نتیجے میں نئی دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت اقتدار میں آئی ہے۔
اسی تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ گجرات میں حکومت کی طرف سے جو اشتہاری مہم شروع کی گئی ہے، اس میں ظاہری طور پر مسلمانوں کو اس مہم میں کیے گئے دعووں کا قائل کرنے کے لیے مسلمانوں کی مذہبی علامت قرار دیے جانے والے ہلال اور ستارے کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔
اب تک بھارت میں کئی یونین ریاستوں کی طرف سے گائے کے ذبح کیے جانے پر پابندی لگائی جا چکی ہے حالانکہ کئی ماہرین کی رائے میں یہ پابندی ان مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتی گروپوں کے خلاف امتیازی فیصلے کے طور پر بھی دیکھی جاتی ہے، جن کے لیے خوراک کے طور پر گائے کا کم قیمت گوشت پروٹین کا واحد ذریعہ تھا۔
گجرات حکومت کی اس تشہیری مہم پر اپنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے احمد آباد کی مرکزی جامع مسجد کے ایک مذہبی رہنما شبیر عالم نے کہا کہ حکومتی تشہیری مہم اس لیے اسلام کی توہین کے مترادف ہے کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت موجود ہی نہیں جو مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے خلاف تنبیہ کرتی ہو۔
انہوں نے کہا، ’’ایسے بل بورڈز اور ہورڈنگز بدامنی کی وجہ بن کر امن عامہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ بات ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے آپس میں تعلقات کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔‘‘
شبیر عالم نے مزید کہا کہ کوئی بھی ایسی بات جو اسلام میں یا قرآن میں نہ کہی گئی ہو اور اس کی کسی نام نہاد قرآنی آیت کا حوالہ دے کر جھوٹ پر مبنی تشہیر کی جائے، تو اسے اسلام کی توہین کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم گجرات کی حکومت کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔‘‘
اسی دوران گجرات کی صوبائی حکومت کے ’گائے کے تحفظ کے بورڈ‘ کے سربراہ ولبھ کاتھیریا نے اس تشہیری مہم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کے مرکزی شہر احمد آباد اور اس کے گرد و نواح میں جو بل بورڈ لگائے گئے ہیں، ان میں ’اسلامی اور دیگر مذہبی رہنماؤں کا حوالہ‘ دیا گیا ہے۔
گجرات بھارت کی ایک ایسی ریاست ہے، جہاں ہندو مسلم فسادات کی ایک باقاعدہ تاریخ موجود ہے۔ وہاں نریندر مودی کی وزارت عظمٰی کے دور میں 2002ء میں ہونے والے مذہبی فسادات میں کم از کم ایک ہزار افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
بھارت کی مغربی ریاست مہاراشٹر میں تو گائے کے گوشت کے بارے میں علاقائی قوانین اسی سال اتنے سخت کر دیے گئے تھے کہ وہاں گائے کے گوشت کا کسی شخص کے قبضے میں ہونا بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔