قرآن کے خلاف عدالتی حکم کے بعد روس میں نئی قانون سازی
12 نومبر 2015روسی دارالحکومت ماسکو سے جمعرات بارہ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں یا دُوما نے بدھ کو رات گئے ایک ایسے قانونی مسودے پر تیسری مرتبہ بحث کے بعد اس کی حتمی منظوری دے دی، جس کے تحت روس میں آئندہ اسلام، مسیحیت اور یہودیت کے صحیفوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کی تحریری تعلیمات پر بھی ان میں درج احکامات کو انتہا پسندانہ قرار دے کر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکے گی۔
روسی دُوما میں یہ مسودہء قانون صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے پیش کیا گیا تھا، جس کی منظوری کے بعد اب مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن، مسیحیوں کی انجیل اور یہودیوں کی توریت کے ساتھ ساتھ بدھ مت کی تحریری تعلیمات میں سے لیے گئے اقتباسات کو بھی نہ تو کوئی روسی عدالت ممنوع قرار دے سکے گی اور نہ ہی ان کی نشر و اشاعت پر کوئی پابندی لگائی جا سکے گی۔
کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق روس میں اس نئی قانون سازی کا مقصد مختلف مذاہب کے صحیفوں کو ان کے خلاف ممکنہ عدالتی فیصلوں سے تحفط فراہم کرنا ہے۔ اس نئی قانون سازی کا پس منظر یہ ہے کہ بحرالکاہل کے روسی جزیرے سخالین میں اس سال اگست کے مہینے میں ایک عدالت نے ایک متنازعہ فیصلہ دے دیا تھا۔
اس مقدمے کا محور ایک کتاب تھی، جس کا عنوان تھا: ’خدا سے کی جانے والی دعائیں: ان کے معنی اور اسلام میں ان کی جگہ‘۔ اس کتاب میں کئی قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد سخالین کے ریاستی دفتر استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان قرآنی حوالوں کو ’انتہا پسندانہ‘ قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی جائے۔
اس مقدمے میں عدالت نے استغاثہ کے موقف کو درست قرار دیا تھا اور یہ فیصلہ بہت متنازعہ ہو گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف روسی مسلمانوں کی سرکردہ تنظیموں نے بھی بھرپور احتجاج کیا تھا اور اس احتجاج میں اکثریتی مسلم آبادی والی روسی جمہوریہ چیچنیہ کے صدر رمضان قدیروف بھی شامل ہو گئے تھے۔
بعد میں اسی مہینے کے اوائل میں سخالین کی عدالت کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا گیا تھا اور روسی صدر پوٹن نے اس بارے میں ملکی پارلیمان میں ایک ایسا مسودہء قانون پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کا مقصد آئندہ کسی بھی مذہبی صحیفے پر لگائی جانے والی عدالتی یا انتظامی پابندی کا رواستہ روکنا تھا۔
روسی دُوما نے اس بارے میں اب جو نئی قانون سازی کی ہے، اس کی بنیاد اس امر کو بنایا گیا ہے کہ مسیحیت، اسلام، یہودیت اور بدھ مت نہ صرف ’روسی اقوام کے تاریخی ورثے کا ناقابل تنسیخ حصہ‘ ہیں بلکہ روسی آئین بھی ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔
کے این نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس موضوع پر ملکی پارلیمان میں ایک مسودہء قانون پیش کیے جانے سے قبل صدر ولادیمیر پوٹن نے نہ صرف روسی آرتھوڈوکس کلیسا بلکہ مسلمانوں، یہودیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے اعلیٰ ترین مذہبی رہنماؤں سے بھی مشورے کیے تھے۔