قرضے کے بوجھ تلے دبے جبری مزدور
23 اکتوبر 2016چوالیس سالہ گوپال نے بہت عرصے اپنی زبان کو تالے لگائے رکھے تاہم اب اس نے اپنی خاموشی توڑ دی ہے: ’’میرے والدین نے لاتعداد گھنٹے کام کیا مگر پیسے کے لیے نہیں صرف کھانے کے لیے۔ وہ گاؤں کے زمین دار کے لیے کام کرتے تھے، جس کے گھر میں میں آج بھی داخل نہیں ہو سکتا۔ وہ انہیں کام کے بدلے کھانے کو کچھ دے دیتا تھا اور میرا باپ غلامی کے دوران ہی انتقال کر گیا۔‘‘ گوپال بینگالورو شہر کے اطراف کے علاقوں کا سفر کرتے ہوئے اپنے والدین کی طرح جبری مشقت کے شکار افراد کو تلاش کرتا ہے۔ اس کے بقول، ’’ایسے لوگوں کی تلاش بہت ضروری ہے، اس سے قبل کو وہ مر جائیں۔‘‘
بھارت میں چالیس سال قبل جبری مشقت پر پابندی عائد کی دی گئی تھی تاہم ابھی بھی لاکھوں لوگ اپنے قرضے چکانے کے لیے ایک طرح سے غلام بننے ہوئے ہیں۔ یہ قرض یا تو انہوں نے خود اپنے مالکان سے لیا ہوتا ہے یا پھر وہ والدین کا لیا ہوا قرض اتار رہے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ ان میں زیادہ تر مزدور اس امر نے ناواقف ہوتے ہیں کہ وہ دس گنا زیادہ رقم واپس کرتے ہیں۔
جیویکا ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، جو بھارت کی جنوبی ریاستوں میں جبری مزدوری کے خلاف کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق 2012ء سے 2015ء کے دوران ریاست کرناٹکا میں انہوں نے جبری مشقت کے بھنور میں پھنسے ہوئے تقریباً تیرہ ہزار ایسے افراد کی نشان دہی کی تھی، جن میں سے زیادہ تر ریاستی حکام کی جانب سے معاوضے کی رقم اور آزادی کی سند کے منتظر ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ کرن کمال پرساد کہتے ہیں، ’’ زرعی شعبے کا یہ ایک دائمی مسئلہ ہے۔‘‘
دیہی ترقی کے ادارے کی درتی لکشمی کہتی ہیں، ’’ہمیں علم ہے کہ یہ واقعی انتہائی غریب اور ان پڑھ لوگ ہیں۔ یہ اکثر اسی زمیندار کے پاس واپس کام کرنے چلے جاتے ہیں، جن سے ان کو چھٹکارا دلایا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ بحالی کے لیے دی جانے والی رقم اکثر ان کے لیے ناکافی ہوتی ہے‘‘۔ گوپال کے ساتھ کام کرنے والے راماکرشنن نے اس موقع پر کہا کہ کم تر ذات کے لوگوں میں زمین دار کا خوف ابھی بھی موجود ہے۔