قطب شمالی میں جہاز رانی کے دس برس
قطب شمالی کی برف پگھلنے سے جہاز رانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس باعث نئے سمندری راستے بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم اس پیشرفت سے اس علاقے کی جنگلی حیات کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
اسے جما ہوا سمندر رہنے دیں
دس برس قبل سائنسی تحقیق کے سلسلے میں ریسرچرز نے برف کا سینہ کاٹتے ہوئے مہم جوئی کی تھی۔ یہ انتیس اگست سن 2008 کا واقعہ تھا۔ محققین کی یہ کوشش سمندری سفر کے لیے ایک نیا موڑ ثابت ہوئی۔ اندازہ لگایا گیا کہ مال بردار جہاز بھی برفانی سمندر کے شمال مشرقی سمت سے شمال مغرب کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں۔ یہ سفر موسم گرما میں ہی ممکن ہے۔
بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل کا شارٹ کٹ
مال بردار بحری جہازوں کا شمال مشرقی راستہ ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر طویل ہے اور یہ طے کرنے کے بعد وہ بحر الکاہل میں داخل ہوتے ہیں۔ برف نہ ہونے کی صورت میں آبنائے بیرنگ اور قطب شمالی دونوں آبی سمندروں کو کم فاصلے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔
طویل سمندری گزرگاہ
ہالینڈ کے شہر راٹرڈیم سے ٹوکیو جانے کے لیے مال بردار بحری جہاز بھارت کے قریب سے گزرتے ہوئے نہر سویز کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ شمالی مشرقی راستے کے مقابلے میں چھ ہزار کلومیٹر زائد ہے۔ اسی طرح امریکی مشرقی ساحلوں سے ایشیا کے لیے بحرالکاہل کا راستہ پاناما نہر سے گزرتا ہے۔ اگر شمال مغربی سمندری راستہ اپنایا جائے تو چار ہزار کلومیٹر مسافت کم ہو سکتی ہے۔
قطب شمالی کی مہم جوئی
سن 2009 میں جرمن شہری ریاست بریمن کی جہازراں کمپنی بیلُوگا نے دو جرمن بحری جہاز پہلی مرتبہ برفانی سمندری راستے کی کھوج پر روانہ کیے تھے۔ یہ شمال مشرقی راستے کی پہلی مہم تھی۔ اب اس گزرگاہ پر بحری جہازوں کی نقل و حمل بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ ٹریفک سال کے اُن چند مہینوں ہی میں دیکھی جاتی ہے جب سمندرمنجمد نہیں ہوتا۔
برف کے بغیر سمندر
کوئی بھی ماحولیاتی سائنسدان یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں قطب شمالی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سبھی کا اتفاق ہے کہ اگلے تیس سے پچاس برسوں میں قطب شمالی برف سے محروم ہو جائے گا لیکن یہ بھی حتمی نہیں ہے۔ صرف اندازہ ہے کہ اس برفانی خطے میں کھلا سمندر کبھی دستیاب ہو گا۔
سکون درہم برہم ہو سکتا ہے
ماہرین حیاتیات کہتے ہیں کہ قطب شمالی میں بحری جہازوں کی نقل و حمل بڑھنے سے اس خطے کی جنگلی حیات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ شمال مشرقی سمندری گزرگاہ کے قرب و جوار میں برفانی براعظم کی اسّی فیصد جنگلی حیات رہتی ہے اور بحری جہازوں کی بڑھتی ٹریفک اس خطے کی حیات کے سکون کو درہم برہم کر دے گا۔
خاص رہائشی
حیاتیاتی سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحری جہازوں کی ٹریفک سے قطب شمالی کی قدرے چھوٹی جسامت کی خاص وہیل مچھلی ناپید ہو سکتی ہے۔ یہ مچھلی ایسے علاقے میں بستی ہے جو شمال مشرقی سمندری راستے کے ارد گرد کا برفانی علاقہ ہے۔
قطب جنوبی بطور ایک نمونہ
ریسرچرز اور ماحول پسندوں کا مطالبہ ہے کہ قطب شمالی کی بحری گزرگاہ کے استعمال کے لیے رہنما اصولوں کا مرتب کیا جانا بہت ضروری ہے۔ اس میں وہیل مچھلیوں کے علاقوں کو محفوظ رکھنا شامل ہے۔ ان بحری جہازوں کو گزرتے ہوئے شور کم کرنے کے ساتھ ساتھ رفتار کو بھی کنٹرول کرنا ہو گا۔ قطب شمالی کے لیے بھی وہی رہنما اصول سامنے رکھیں جائیں جو قطب جنوبی کے لیے ہیں۔
طوفان سے قبل خاموشی خطرناک تو نہیں
ماحول دوست تنظیم گرین پیس کا کہنا ہے کہ برفانی سمندر کے شمال مشرق سے شمال مغرب کی جانب سالانہ بنیاد پر اس وقت پچاس بحری جہاز گزرتے ہیں۔ تنظیم کے مطابق بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے خاموشی ہے اور کوئی ضوابط پر بات نہیں کرتا۔ یہ ایک خطرناک صورت حال پیدا کر سکتی ہے۔