قطر بحران: خلیجی ممالک کے وزرائے خارجہ امریکا میں
28 جون 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ قطر کے معاملے پر سعودی عرب کا سخت موقف بحران کے حل کے سلسلے میں کسی پیش رفت کے راستے میں حائل ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب اور اس کی اتحادی دیگر عرب ریاستوں کی طرف سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے قطر کو دی گئی ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کو ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن قطر تنازعے کے حل کی کوششوں میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ اسی تناظر میں انہوں نے قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے بھی ملاقات کی ہے۔ اس کے بعد ٹلرسن کویتی وزیر برائے امور کابینہ شیخ محمد عبداللہ الصباح سے بھی ملے۔ کویت اس تنازعے میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔
منگل 27 جون کو ٹلرسن نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش سے بھی ملاقات کی جنہوں نے قطر کے تنازعے کے حل کے سلسلے مدد فراہم کرنے کی پیشکش کر رکھی ہے۔
تاہم واشنگٹن ہی میں موجود سعودی وزیرخارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ قطر سے کیے گئے مطالبات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ الجبیر کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھا، ’’قطر کے حوالے سے ہمارے مطالبات پر کوئی تبدیلی نہیں ہو گی: اب یہ قطر پر ہے کہ وہ شدت پسندی اور دہشت گردی کی پشت پناہی ترک کر دے۔‘
متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کے تعاون کے ساتھ سعودی عرب نے پانچ جون کو قطر کے ساتھ تمام طرح کے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان ممالک کے الزام تھا کہ قطر شدت پسند گروپوں کو تعاون فراہم کر رہا ہے تاہم دوحہ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے قطر کے ساتھ لگنے والی اپنی تمام سرحدیں بھی بند کر دی تھیں جو قطر کے لیے خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت درآمد کرنے کا اکلوتا زمینی رابطہ ہیں۔
گزشتہ ہفتے ریاض حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر قطر کو 13 نکات پر مشتمل اپنے مطالبات کی ایک فہرست فراہم کی تھی۔ اس فہرست میں الجزیرہ نیٹ ورک کی بندش، ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات میں کمی اور ترکی کی ملٹری بیس کی بندش جیسے مطالبات بھی شامل تھے۔ متحدہ عرب امارات نے قطر کو متنبہ کیا تھا کہ اگر یہ مطالبات پورے نہ کیے گئے تو قطر کو اپنے ہمسایوں سے الگ ہو جانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔