قطر سعودی تنازعہ پاکستان کی معیشت مشکلات سے دوچار
14 جولائی 2017امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے جہاں سياسی و سفارتی نتائج عالمی منظر نامے پر ديکھے جارہے ہيں، وہيں اقتصادی ميدان ميں بھی امريکا سعودی عرب اتحاد کے منفی نتائج ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہيں۔ اس تمام کہانی سے سب سے زيادہ قطر ہی متاثر ہوا ہے۔ سعودی عرب نے ليبيا بحرين یمن مصر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر نہ صرف قطر پر دہشت گردی کا الزام عائد کيا ہے بلکہ سفارتی و اقتصادی بائيکاٹ بھی کر ديا ہے اور پاکستان سميت ان ممالک پر بھی دباؤ ڈالنا شروع کرديا ہے، جو قطر سے تجارت يا کوئی بھی لين دين کرتے ہيں۔
’قطری امریکی معاہدہ ناکافی ہے،‘ عرب ریاستوں کا موقف
عرب ریاستوں کا بحران، امریکی وزیر خارجہ کا دورہ
قطری ردعمل پر افسوس، مگر نئی پابندیوں سے گریز
معاشی امور کی ماہر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کے مطابق اگرچہ پاکستان اور قطر کے درميان دو طرفہ تجارت کا حجم قابل ذکر نہيں ليکن توانائی کی قلت سے دوچار پاکستان قطر سے سالانہ پينتيس لاکھ ٹن مائع گيس يعنی ايل اين جی درآمد کر رہا ہے۔ اگر اس منصوبے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کے منفی اثرات پاکستان کے صنعتی شعبے پر بھی نمایاں ہو سکتے ہیں۔ پاکستان سعودی عرب اور قطر کے درميان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے تاجر و صنعت کار بھی انسانی ہمدردی کی خاطر قطر کو غذائی اشيا پہنچانے ميں سنجيدہ ہيں ليکن يہ معاملہ اتنا آسان نہيں جتنا نظر آتا ہے۔
’پاکستان ناراضی مول نہیں لے سکتا‘
ناقدین کے بقول مالی مشکلات سے دوچار پاکستان کسی صورت سعودی عرب اور قطر کی ناراضی کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی ایک وجہ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کے سعودی عرب اور قطر سے دیرینہ تعلقات ہیں مگر خود نواز شریف پانامہ اسکینڈل کی وجہ سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے مستعفیٰ ہونے کے مطالبے کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔
نواز شریف کے خلاف ہونے والی بہت سی تحقیقات قطر سے جڑی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت ثالثی کا مؤثر کردار ادا نہیں کر پا رہے، جس کی دونوں ممالک امید کر رہے تھے۔ ایک طرف تو پاکستان میں سیاسی بے یقینی کی وجہ سے معیشت دباؤ کا شکار ہے اور دوسری طرف ساتھ ہی کرنسی مارکیٹ میں پاکستانی روپے امریکی کرنسی کے مقابلے میں سخت دباؤ کا شکار ہے جبکہ قطر اور سعودی عرب کے بگڑتے معاملات کے پیش نظر قطری ریال کا لین دین بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
قطری کرنسی کو دھچکا
پاکستان کرنسی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ موجودہ صورتحال سے پہلے ايک قطری ريال کی قيمت انتيس روپے کے برابر تھی، جو اب قابل قبول نہيں البتہ بعض سرمایہ کار مستقبل میں حالات بہتر ہونے سے پر امید ہیں، جس کی بنیاد پر وہ کم قیمت پر قطری ریال کی خریداری کر رہے ہیں تاہم مقامی مارکیٹ میں قطری ریال کا لین دین نہ ہونے کے برابر ہے۔
مالیاتی امور کے ماہر مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ خلیج کے حالیہ بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پاکستانیوں کو ہو رہا ہے، کیونکہ وہاں سے ان کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور اگر یہ صورتحال زیادہ عرصے برقرار رہی تو پاکستان میں سیاسی بحران کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور غربت کے نیتجے میں نیا معاشی بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔
خلیجی ممالک میں پاکستانی بے روزگاری کا شکار
سعودی عرب پہلے ہی شام اور یمن میں جنگ لڑ رہا ہے، جس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جہاں پہلی بار اس نے عالمی مارکیٹ میں بانڈ متعارف کرائے، وہیں ملازمتوں میں کٹوتی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اب تک متعدد پاکستانی ورکرز سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، جس کی وجہ سے جہاں پاکستان کو ترسیلات زر میں کمی کا سامنا ہے وہیں بیرونی ادائیگیوں پر بھی بھاری مالی بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ مالی سال پاکستان کو بیرونی تجارت میں دس ارب ڈالر سے زائد خسارہ ہوا اگر صورتحال میں بہتری نہ آئی تو اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
تیس جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر میں دو سے تین فیصد کمی ہوئی اور اس کا مجموعی حجم تیرہ سے پندرہ ارب ڈالر رہا۔ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر سرمایہ کار سعودی اور قطری ریال کے بجائے اب امریکی کرنسی میں سرمایہ کاری پر زور دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے امریکی ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔ کرنسی مارکیٹ میں چودہ جولائی بروز جمعہ امریکی ڈالر کی قیمت ایک سو پانچ روپے بیس پیسے ریکارڈ کی گئی۔
قطر سے تجارت ترک کرنے کے نقصانات
توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان نے صنعتی شعبے کو بلاتعطل گيس اور بجلی کی فراہمی کے لیے جولائی دوہزار تيرہ ميں قطر سے ايل اين جی کی درآمد پر پيش رفت شروع کی۔ سولہ ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت قطر سال دو ہزار اکتيس تک پاکستان کو يوميہ پچاس کروڑ کيوبک فيٹ مائع گيس فراہم کرے گا۔
قطر سے درآمدی گيس کا پہلا بحری جہاز يکم مارچ دوہزار سولہ کو کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا جبکہ ہر ماہ ايل اين جی سے لدے چار بحری جہاز پاکستان پہنچ رہے ہيں، ليکن اب مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال امريکا اور سعودی اتحاد کے نتيجے ميں پاکستان پر دباؤ ہے کہ يہ معاہدہ منسوخ کيا جائے مگر ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں حکومت دونوں ہی ملکوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتی۔
مبصرین کے بقول اگر کسی وقت پاکستان پر قطر سے معاہدہ معطل کرنے پر دباؤ بڑھا تو ملک کی صنعتیں مزید مشکل صورتحال سے دوچار ہوجائیں گی۔ ایوان صنعت و تجارت کراچی کے صدر شمیم احمد فرپو کا کہنا ہے کہ پاکستان اور قطر کے درميان ايل اين جی معاہدہ سب سے اہم ہے اگر گيس کی درآمد بند ہوئی تو صنعتی مراکز پر تالے پڑ جائيں گے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہی صنعتیں اپنی پیداواری استعداد کے مطابق کام نہیں کر رہیں اگر گیس کا مسئلہ پیدا ہوگیا تو صنعتوں کی بندش کے نتیجے میں بے روزگاری اور غربت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکے گا۔
مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی کرنسی مارکیٹ میں جہاں قطری کرنسی کی ٹریڈنگ بند ہو گئی، وہیں امریکی ڈالر کے ساتھ برطانوی پاؤنڈ اور یورو کی قیمتوں میں استحکام دیکھا جا رہا ہے۔ ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ یورپی کرنسی کی قیمت ایک سو بائیس روپے پانچ پیسے اور برطانوی پاؤنڈ کی قیمت ایک سو اڑتیس روپے اسی پیسے ہے۔