1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر کی تنہائی ’اسلامی اقدار‘ کے خلاف ہے، ایردوآن

عاطف توقیر روئٹرز
13 جون 2017

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے خلیجی ممالک کی جانب سے قطر کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے سے متعلق اقدامات کو ’اسلامی اقدار‘ کے منافی قرار دیا ہے۔ ایردوآن کا یہ بیان اس موضوع پر کسی مسلم رہنما کا سخت ترین بیان ہے۔

https://p.dw.com/p/2ee6u
Türkei Präsident Erdogan Rede Parteitag AKP
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے قطر کی مکمل ناکہ بندی پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ’اسلامی اقدار کے منافی‘ قرار دیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مشرق وسطیٰ کے اس تنازعے کے اثرات خطے کے باہر تک دکھائی دے رہے ہیں۔ خلیجی ممالک کی جانب سے قطر پر سفری پابندیاں عائد کرنے اور تمام سفارتی رابطے منقطع کر دینے کو آٹھ روز گزر چکے ہیں۔ ان ممالک کا الزام ہے کہ قطر دہشت گردی کی معاونت کر رہا ہے، جب کہ دوحہ حکومت ایسے تمام الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دے کر رد کرتی ہے۔

روئٹرز کے مطابق دو اعشاریہ سات ملین آبادی کا ملک قطر اپنی ضروریات کی 80 فیصد اشیاء درآمد کرتا ہے اور اس کے ہم سایہ ممالک کی جانب سے اس پر سخت پابندیوں کی وجہ سے وہاں خوراک کی قلت کے خدشات ہیں۔ تیل اور گیس کی برآمدات پر انحصار کرنے والا ملک قطر ان پابندیوں کی وجہ سے کسی حد تک دباؤ کا شکار ہے اور اسی صورت حال میں متعدد بینکوں اور دیگر کاروباری اداروں نے وہاں اپنی سرگرمیاں کچھ محدود بھی کی ہیں۔

Katar nach dem Boykott
قطر میں اشیائے خوردنوش کی کمی کے خدشات ہیںتصویر: Getty Images/AFP

انقرہ میں اپنی جماعت اے کے پارٹی کے ارکان سے خطاب میں رجب طیب ایردوآن نے کہا، ’’قطر کے معاملے میں ایک نہایت بھیانک غلطی کی گئی ہے۔ ایک قوم کو ہر طرح سے تنہا کرنے کے اقدامات غیرانسانی اور اسلامی اقدار کے منافی ہیں۔ یہ تو یوں ہے کہ قطر کے لیے سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’قطر نے ترکی کے ساتھ مل کر اسلامک اسٹیٹ جیسی شدت پسند تنظیم کے خلاف انتہائی ٹھوس موقف اپنا رکھا ہے۔۔۔ قطر کو نشانہ بنانے کی کوشش کسی کے مفاد میں نہیں۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ ترکی نے موجودہ صورت حال میں بھی خلیجی ممالک کے ساتھ ساتھ قطر کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھے ہیں۔ ترکی اور قطر دونوں اخوان المسلمون کی حمایت کرتے ہیں، جب کہ یہ دنوں ممالک شام میں بشارالاسد کی حامی فورسز کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی معاونت بھی کرتے رہے ہیں۔