قندھار، امریکی افواج کا مرکز نگاہ
12 اگست 2010گزشتہ برس دسمبر میں واشنگٹن حکام نے اپنی افغان پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے جنوبی افغانستان میں قندھار اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں ایک بڑے آپریشن کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس دوران امریکی صدر باراک اوباما اعلان بھی کر چکے ہیں کہ افغانستان سے امریکی دستوں کا انخلاء جولائی2011ء سے شروع ہو جائے گا۔ نیٹو اور اس کی اتحادی افواج کا کہنا ہے کہ وہاں عسکریت پسند بہت زیادہ منظم ہیں اور یہی وہ علاقہ ہے، جو اتحادی افواج کے خلاف کی جانے والی باغیوں کی تمام تر کارروائیوں کا مرکز ہے۔
لیکن یہ آپریشن کلین اپ افغان حکومت کے ساتھ اختلاف رائے کی وجہ سے ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے۔ امریکی افواج نے قندھار اور ملحقہ علاقوں میں فضائی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تاہم اس کے ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ پھر بھی سخت مزاحمت کے خدشے کے باوجود جنگ کی منصوبہ بندی کرنے والے امریکی ماہرین قندھار میں اس آپریشن کے حق میں ہیں۔
اس حوالے سے ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ قندھارشہر سے تو نہیں بلکہ اس سے ملحقہ علاقوں، جیسے کہ پنجوالی سے زیادہ مزاحمت کی توقع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ قندھارکا کنٹرول افغان سکیورٹی اہلکاروں کو سونپنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ساتھ ہی مقامی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے حوالےسے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں کیونکہ اس علاقے کے زیادہ تر شہری حکومتی اہلکاروں کی بدعنوانی کی وجہ سے پریشان ہیں اور اس بات کو اکثر شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
پینٹاگون میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسی سال خزاں کے موسم میں قندھار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مزید تیزی آنے کے امکانات ہیں۔ اس اہلکار نے کہا کہ خصوصی مسلح دستے طالبان کو پہنچنے والی رسد کو روکنے اور ان کے رہنماؤں کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ تاہم اس امریکی اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ اس دوران کتنے طالبان رہنما ہلاک کئے جا چکے ہیں۔
افغانستان میں امریکی حکمت عملی سے متعلق ایک بڑا سوالیہ نشانہ افغان صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی کی ذات بھی ہے۔ اُن پر بدعنوانی کے ساتھ ساتھ منشیات فروشوں سے تعلقات رکھنے کے بھی الزامات ہیں۔ امریکہ کی افغان پالیسی صرف دہشت گردی کے خلاف ہی نہیں بلکہ اس میں بدعنوانی کی روک تھام بھی شامل ہے۔ قندھار کی صوبائی کونسل کے صدر کے طور پر احمد ولی کرزئی کے پاس کافی اختیارات ہیں۔ پینٹاگون میں اس امریکی اہلکار سے یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ آیا ممنکہ آپریشن کلین اپ میں صدر کرزئی کے سوتیلے بھائی کو بھی شامل کیا جائے گا؟ اس پر اس امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ احمد ولی کرزئی کا تعاون اہم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ایک تو وہ صدر کرزئی کے بھائی ہیں اور دوسرے یہ کہ حکام کو اس علاقے میں ان کے اثر و رسوخ کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک