قومی سلامتی کے مشیران کی ملاقات، امید کی نئی کرن؟
2 جنوری 2018پاکستان اور بھارت کے مشیران جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ اور اجیت دوول کی بنکاک میں چھبیس دسمبر کی ملاقات حالیہ کشیدگی میں ایک خوشگوار رابطہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ نجی ملاقات تھی اور نہ ہی اتفاقیہ۔ دسمبر کے آخر میں طے ہونے والی اس نشست کا پیش منظر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو تھا۔ دونوں حکومتوں نے یادیو سے ان کی والدہ اور زوجہ کی ملاقات کو باہمی حالات میں مثبت تبدیلی لانے کا ذریعہ بنایا۔ پاکستان کی طرف سے اس ملاقات کی بنیاد کو انسانی اور اسلامی اقدار کے مطابق قرار دیا گیا۔ تاحال عوامی سطح پر قومی سلامتی کے مشیران کی خفیہ ملاقات کی خبر عام نہ تھی۔ البتہ مبصرین کا تجزیہ تھاکہ کلبھوشن یادیو پر پاکستان کی قدرے نرم روی بین الاقوامی دباﺅ کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
اجیت دوول اور ناصر خان جنجوعہ کا یہ بنکاک میں یہ پہلی ملاقات نہیں تھی۔ دونوں اعلیٰ سرکاری اہلکار 2015ء میں بنکاک ہی میں ملے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اب تک یہ دونوں عہدیدار کئی بار خفیہ ملاقاتیں کر چکے ہیں اور کشیدگی کی صورتحال کے باعث رابطے میں رہتے ہیں۔
اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں نے غیر سرکاری طور پر اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ عالمی گروہ بندی میں تغیر کے باعث خطے میں سفارتی سرگرمیاں انتہائی تیز ہو چکی ہیں۔ امریکا بھارت کے ساتھ دفاعی اور سیاسی اتحاد کر چکا ہے اور دوسری جانب پاکستان چین تعلقات غیر معمولی سطح تک پہنچے ہیں۔ بھارت میں انتہا پسند ہندو حکومت، امریکا میں صدر ٹرمپ کا انتخاب اور پاکستان کی چین کو معاشی راہداری جنوبی ایشیاء میں سیاسی اور سفارتی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث ہیں۔ امریکا اور بھارت پاکستان پر اس لیے بھی برہم ہیں کہ اسلام آباد دہلی کو کابل کے لیے معاشی راہداری دینے پر رضامند نہیں کیونکہ افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر کے تانے بانے بھارت سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب بھارت پاکستان کو کشمیر میں مداخلت کا مرتکب گردانتا ہے اور مودی حکومت اسلام آباد کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دیتے ہوئے عالمی سطح پر اسے تنہا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مزید برآں بھارت کا دفاعی بجٹ عسکری صلاحیتوں میں اضافے اور اسلحے کے دوڑ میں تیزی سے خرچ ہو رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت میں طاقت کے توازن میں تغیر جنگ کا موجب ہو سکتا ہے۔ بی جے پی کی قیادت بار ہا پاکستان کو نقشے سے مٹانے کی دھمکیاں دے چکی ہے۔ ممبئی میں دہشت گردی کے ہولناک واقعات کے بعد سے پاک بھارت مذاکرات معطل ہیں۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان ممبئی دہشت گردی کے مبینہ ملزم حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرے جبکہ پاکستانی عدالتیں ثبوت نہ ہونے کے باعث ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔
اگست 2016ء سےبھارتی وزیراعظم نریندر مودی تعلقات میں کشیدگی کو نئی سطح پر لے گئے ہیں۔ انہوں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کی کھلے عام حمایت کی تھی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پاکستانیوں کے لیے کوئی اتنی حیران کن خبر نہیں تھی۔
اس پیچیدہ پس منظر میں اجیت دوول اور ناصر خان جنجوعہ کی بنکاک میں خفیہ ملاقات خوش آئند ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق دو گھنٹے طویل ملاقات میں دونوں شخصیات نے کشمیر کی صورتحال، پاکستان کی مبینہ مداخلت، آزادکشمیر میں نہتے شہریوں پر بھارتی فورسز کی فائرنگ، 800 سے زائد بار کنٹرول لائن کی پامالی اور سیکرٹری کی سطح پر مذاکرات کی بحالی ایسے موضوعات پر بحث کی۔
بنکاک ملاقات سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ پاکستان اور بھارت تمام تر تلخی کے باوجود اعلیٰ سطحی رابطوں کے لیے تیار ہیں اور کشیدگی میں مزید اضافے کی صورت میں جنگ کی صورتحال سے بچنے کا امکان موجود ہے۔ البتہ پاکستان بھارت سیکریٹری خارجہ ملاقات کے بعد ہی جامع مذاکرات کی بحالی کی امید پیدا ہوگی۔ اب جبکہ بھارت میں مودی حکومت کوئی بڑی انتخابی مہم نہیں چلا رہی، وہ پاکستان کے حوالے سے قدرے نرم پالیسی اختیار کر کے سکریٹری خارجہ ملاقات کی حمایت کر سکتی ہے۔ پاکستان چند ماہ میں پارلیمانی انتخابات منعقد کرانے جا رہا ہے۔ یوں کسی بھی نئے مذاکراتی سلسلے کا انعقاد نئی حکومت کے بعد ہی ممکن دکھائی دیتا ہے تاہم قومی سلامتی کے مشیران کے مسلسل رابطے اعتماد سازی میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اجیت دوول مودی کے نظریاتی ساتھی ہیں اور پاکستان کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کے شدید حامی بھی۔ مزید برآں ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت نوازی ان کی پاکستان مخالف پالیسیوں کو تقویت دے گی۔ یکم جنوری کو امریکی صدر کی جارحانہ ٹویٹ بھارت کیلئے خوش آئندہ ہے۔ ٹرمپ خاندان کو گزشتہ برس بھارت میں سرمایہ کاری کے دلکش مواقع کی فراہمی اور امریکا میں بھارت کے حمایت کاروں کا اثرورسوخ پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں براہِ راست اضافے کا موجب ہوں گے۔
افغانستان کی صورتحال کو استعمال کرتے ہوئے بھارت اور امریکا پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام دہرانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے خطے کی سفارتی اور عسکری فضاء آلودہ ہے۔ پاکستان امریکا کشیدگی سے جہاں بھارت براہِ راست مستفید ہو رہا ہے وہاں یہ افغانستان اور امریکی فوج کے لیے یکسر ناموافق ہے۔ ٹرمپ حکومت اور ان کے فوجی اہلکار غیردانشمندانہ حکمت عملی اپنا کر افغانستان کو داعش کے چنگل میں دھکیل رہے ہیں۔ بھارت کی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں پرانے تنازعات اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کے بعد نیا محاذ بن چکی ہے۔
اگرچہ قومی سلامتی کے مشیران کی آئندہ ملاقاتیں مثبت اثرات کی حامل ہو سکتی ہیں لیکن یک طرفہ امریکی دباﺅ اور بھارت کی غیر حقیقی توقعات کسی بڑی مثبت پیش قدمی میں حائل رہیں گی۔ دریں اثناء پاکستان کو جہاں افغانستان اور امریکا سے تعلقات میں بہتری کی عملی کوششیں جاری رکھنا ہوں گی وہاں اندرون ملک انتہا پسندی کا قلع قمع کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑنی ہو گی۔ بھارت اپنی تمام تر معاشی اور عسکری قوت کے باعث پاکستان پر براہ راست جنگ مسلط کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔