1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قومی مصالحتی آرڈیننس کالعدم

17 دسمبر 2009

پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پرویز مشرف کے دور میں پیش کئے جانے والے قومی مصالحتی آرڈیننس کو دستور پاکستان کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اِس فیصلے کے بعد پاکستانی سیاست میں وسیع تبدیلی متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/L42w
تصویر: AP

بدھ کی شام کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے بڑے بینچ کے سترہ ججوں نے طویل مشاورت کے بعد متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس کو سن اُنیس سو تہتر کے آئین میں موجود برابری کی شق کے تناظر میں غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام سترہ ججوں پر مشتمل بینچ کی سربراہی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے۔ اِس متنازعہ آرڈیننس کی سماعت سات روز تک جاری رہی۔

سپریم کورٹ کے اس مختصر فیصلے میں یہ حکم بھی جاری کیا گیا ہے کہ وہ تمام مقدمات جو اِس آرڈیننس کے پیش کرنے کے بعد ختم کردیے گئے تھے انہیں دوبارہ پانچ اکتوبر سن دو ہزار سات کی پوزیشن پرازسر نو سماعت کے لئے بحال کر دیا ہے۔ صوبائی حکومتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اِن مقدمات میں ملوث افراد کو دوبارہ سے نوٹس روانہ کریں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اِن مقدمات کی مانیٹرنگ کا بھی اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے مشہور سوئس کیس کے حوالے سے حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اِس مناسبت سے اپیل دائر کرے۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ایمرجنسی دور کے اٹارنی جنرل ملک قیوم کے سوئس عدالت کو خط لکھے جانے پر وفاقی حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کہا ہے۔

Iftikhar Chaudhry
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں اس مقدمے کی سماعت میں سپریم کورٹ کے تمام 17 ججوں نے حصہ لیا۔تصویر: picture-alliance/ dpa

اِس دستوری عدالتی فیصلے کے بعد مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر وسیع اور بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ فیصلے کے فوراً بعد ہی پاکستان مسلم لیگ نون کے سینئر لیڈر خواجہ آصف نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو مستعفی ہونے کا مشور دیا ہے۔ ایسا ہی بیان جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ خواجہ آصف کے مشورے کے جواب میں مرکزی کابینہ کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والےایک وزیر بابر اعوان نے پاکستان مسلم لیگ نون کے لیڈر کو جوابی مشورہ دیا ہے کہ وہ اب سیاست میں مذاق کے رویے کو چھوڑ دیں۔ اسی طرح پاکستانی صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صدر آصف علی زرداری کے استعفے کا اب بھی جواز نہیں ہے۔ فرحت اللہ بابر نے یہ بھی کہا کہ اُن کی پارٹی عدالتی فیصلے کا احترام کرتی ہے۔

پانچ اکتوبر سن دو ہزار سات کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں متعارف کروائے جانے والے قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت موجودہ صدر آصف زرداری اور مقتول لیڈر بے نظیر بھٹو کے خلاف مقدمات کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک اور وزیر دفاع احمد مختار سمیت تیس سے زائد دوسرے سیاستدان اِس قانون سے مستفید ہوئے تھے۔ اس صدارتی حکم سے مستفید ہونے والوں میں کئی اعلیٰ سرکاری ملازمین سمیت تین سفیربھی فہرست میں شامل ہیں۔

حکومتی بیان کے مطابق آٹھ ہزار سے زائد افراد کو اِس مصالحتی آرڈیننس سے فائدہ پہنچا تھا۔ اِس سلسلے میں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے وزیر نے تفصیل کو عام کیا تھا۔ عدالت میں ساڑھے چار ہزار کے قریب مقدمات کی فہرست فراہم کی گئی تھی جو اِس آرڈیننس کے تحت ختم کئے گئے تھے۔ اِن میں قتل سے لے کر مالی بد عنوانی تک کے کئی سنگین نوعیت کے مقدمات شامل تھے۔ اب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد یہ تمام مقدمات دوبارہ اپنی پرانی پوزیشن پر بحال ہو گئے ہیں۔

Pakistan Generalstaatsanwalt Malik Mohammed Qayyum
فیصلے میں سابق ٹارنی جنرل ملک قیوم کی طرف سے سوئس عدالت کو خط لکھے جانے پر وفاقی حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔تصویر: AP

سپریم کورٹ میں اپیلوں کی سنوائی کے دوران ہی مختلف سینئر قانون دانوں نے قومی مصالحتی آرڈیننس کے تحت فائدہ اٹھانے والی شخصیات کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی اپنی ضمانتوں کا بندوبست کرلیں۔ یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں شامل وزراء کو بھی ملک کے اندر دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو کر عدالتوں سے رجوع کریں اور اپنے اپنے ناموں کو صاف کروائیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سیاسی جماعتوں کا ردعمل آنا شروع ہو گیا ہے۔ اِس مقدمے میں ایک اپیل کنندہ ڈاکٹر مبشر حسن کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ کا بھی یہ خیال ہے کہ اب کچھ اہم لوگ اپنے اپنے منصب سے فارغ ہو سکتے ہیں۔ پیرزادہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا۔

پیپلبز پارٹی نے بھی عدالتی فیصلے کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنے کے سلسلے میں اپنی مجلس عاملہ کا اجلاس انیس دسمبر کو طلب کرلیا ہے۔ دیگر پارٹیاں بھی اپنے اپنے مؤقف کے حوالے سے خصوصی اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

رپورٹ : عابد حسین

ادارت : افسر اعوان