1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قومی یکجہتی کی کوشش، حماس اور فتح میں مذاکرات

9 اکتوبر 2024

حماس کی جانب سے بدھ کے روز بتایا گیا کہ قاہرہ میں اس کے وفد نے فلسطینی تنظیم فتح کے وفد سے ملاقات کی ہے، جس میں غزہ میں گزشتہ ایک برس سے جاری جنگ اور فلسطینی قومی یک جہتی کے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔

https://p.dw.com/p/4laS5
غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے کے بعد کا ایک منظر
غزہ میں اسرائیل گزشتہ ایک برس سے عسکری کارروائیوں میں مصروف ہےتصویر: Abdel Kareem Hana/AP/dpa/picture-alliance

حماس کی جانب سے بدھ کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ مصری دارالحکومت قاہرہ میں حماس تحریک اور فتح تحریک کے وفود کی ملاقات میں ''غزہ پٹی میں جارحیت اور سیاسی پیش رفت کے علاوہ  فلسطینی قومی یکجتی‘‘ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فتح کے ذرائع نے بھی ان اطلاعات کی تصدیق کی ہے۔

واضح رہے کہ حماس اور فتح کے درمیان سن 2007 میں خونریز لڑائی ہوئی تھی، جس کے بعد حماس نے غزہ پٹی کا انتظام سنبھال لیا تھا، جب کہ فتح تحریک نے مغربی اردن کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ فتح تنظیم بدستور فلسطینی اتھارٹی میں ایک مضبوط پوزیشن کی حامل ہے۔ چوں کہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضہ ہے، اس لیے اس خطے میں فلسطینی اتھارٹی کی عمل داری معمولی نوعیت کی ہے۔

رواں برس جولائی میں حماس نے اعلان کیا تھا کہ اس نےبیجنگ میں فتح سمیت دیگر حریف فلسطینی تنظیموں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت مشترکہ راہ عمل اپنائی جائے گی۔

اسرائیل میں حزب اللہ کے ایک راکٹ حملے سے تباہ ہونے والی گاڑیاں
اسرائیل میں حزب اللہ کے ایک راکٹ حملے کے نتیجے میں تباہ ہونے والی گاڑیاںتصویر: Leo Correa/AP Photo/picture alliance

غزہ کی جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد 42 ہزار سے متجاوز

غزہ میں حماس کے زیرنگرانی کام کرنے والی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد اب بیالیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

بدھ کے روز وزارت صحت کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ غزہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد اب بیالیس ہزار دس ہو چکی ہے، جب کہ ایک سال سے جاری اس مسلح تنازعے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی ستانوے ہزار سات سو بیس بنتی ہے۔ واضح رہے کہ غزہ کی وزارت صحت ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد جاری کرتی ہے، تاہم جنگجوؤں اور عام شہریوں کے درمیان فرق نہیں کرتی۔ تاہم اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی ادارے ان اعداد و شمار کو قابل بھروسا قرار دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا جس میں بارہ سو سے زائد اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے تھے جب کہ یہ جنگجو ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر ساتھ بھی لے گئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

بیروت میں ایک ہیومینیٹیرین مرکز
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیںتصویر: AFP

اسرائیلی حملوں کے باوجود حزب اللہ فعال

روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملوں کے باوجود حزب اللہ کی ''چین آف کمانڈ‘‘ بدستور فعال ہے اور یہ تنظیم منظم ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے کہا، ''ہمارے اندازوں کے مطابق حزب اللہ کے عسکری بازو سمیت پوری تنظیم نے اپنی چین آف کمانڈ نہیں کھوئی اور بدستور ایک فعال تنظیم ہے۔‘‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ مغربی دنیا خصوصاﹰ امریکہ اور برطانیہ اس تنازعے کو پورے مشرق وسطیٰ میں پھیلانا چاہتے ہیں اور اسرائیل کی حمایت کے اعتبار سے 'منافقانہ روش‘ اختیار کیے ہوئے ہیں، جس کا نتیجہ بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ حزب اللہ کا قیام اسی کی دہائی کے اوائل میں ایرانی انقلابی گارڈ کے ذریعے عمل میں آیا تھا، جب کہ یہ لبنان میں شیعہ افراد کی ایک اہم سماجی، مذہبی اور سیاسی تحریک ہے۔

سات اکتوبر کو ہوا کیا؟ جس کے بعد اسرائیلی حملے شروع ہوئے!

روس نے شام میں اسرائیلی حملوں پر بھی تنقید کی۔ روسی بیان میں کہا گیا ہے، ''اسرائیل نے  شامی خود مختاری کو ایک بار پھر نشانہ بنایا ہے، جہاں دمشق کے ایک گنجان آباد علاقے میں ایک کثیرالمنزلہ عمارت کو میزائلوں سے ہدف بنایا گیا ہے۔‘‘

بیان میں مزید کہا گیا، ''اس سے اسرائیل کی اس تنازعے کو خطے میں مزید وسعت دینے کی خواہش بھی ظاہر ہوتی ہے۔‘‘

اسرائیلی فوجیوں پر حملے جاری، حزب اللہ

دوسری جانب حزب اللہ نے کہا ہے کہ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجیوں پر حملے جاری ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف زمینی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ حزب اللہ کے مطابق جھڑپیں جاری ہیں۔ اس سے قبل اس لبنانی شیعہ عسکری تنظیم نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے پیش قدمی کی دو کوششوں کو روکا جا چکا ہے اور اس کے خلاف راکٹوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

ع ت/ ک م، م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)