قیامت ’’دو ہزار بارہ ‘‘ میں
23 نومبر 2009فلم’’دو ہزار بارہ‘‘ میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے سن دو ہزار بارہ میں پوری دُنیا تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ فلموں میں بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی کے مناظر کو زیادہ سے زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرنے کے معاملے میں جرمن ہدایتکار رولانڈ ایمرِش کو خصوصی شہرت حاصل ہے۔
اُنیس سو چھیانوے میں ”دا انڈی پینڈینس ڈے“ کی شاندار کامیابی نے ایمرِش کو عالمی شہرت سے ہم کنار کیا۔ غیر ارضی مخلوق کی جانب سے زمین پر حملے سے متعلق اِس فلم نے دُنیا بھر میں آٹھ سو ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا۔ پھر دو ہزار چار کی فلم ” دا ڈے آفٹرٹومارو“ میں پوری دُنیا کو ایک بار پھر برف سے ڈھک دینے کے واقعات بڑی مہارت سے پیش کئے گئے۔ رولانڈ ایمرِش کی تازہ ترین فلم ”دو ہزار بارہ“ میں دُنیا ایک بار پھر تباہی سے دوچار ہے۔
اِس فلم کا آغاز بھارت کی ایک معدنی کان سے ہوتا ہے۔ سال ہے، دو ہزار نو۔ وہاں ایک سائنسدان یہ پتہ چلاتا ہے کہ سورج کی سطح پر ایک بہت بڑا دھماکہ ہوا ہے، جس کے بعد نیوٹرونز کی بڑے پیمانے پر تابکاری کے نتیجے میں زمین کے مرکزے کے درجہء حرارت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اب یہ خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر زلزلے آئیں گے، آتِش فشاں پہاڑ پھٹیں گے اور سُونامی کی تباہ کن لہریں تباہی کا پیغام لائیں گی۔
فلم میں مرکزی کردار ایک ادیب جیکسن کرٹِس کا ہے، جو ادا کیا ہے، اداکار جَون کُوسَیک نے۔ وہ زمین کو درپیش خطرات کا پتہ چلتے ہی اپنی اہلیہ کیٹ کو فون کرتا ہے:
کیٹ:
ہیلو ؟جَیک: کیٹ، تم جو کچھ بھی کر رہی ہو، روک دو۔
کیٹ:
جَیک۔جَیک:
میری بات سنو، مَیں نے ایک جہاز کرائے پر لیا ہے۔ بچوں کو تیار کرو۔ مَیں پانچ منٹ میں وہاں پہنچ رہا ہوں۔کیٹ:
تم کس بارے میں بات کر رہے ہو؟لیکن جب یہ ادیب اپنی سابقہ بیوی اور اپنے بچوں کو لینے گھر پہنچتا ہے تو ایک طرح سے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ کیونکہ کیلیفورنیا میں فوراً ہی ایک بڑا زلزلہ آنے والا ہوتا ہے۔ اِس فلم کے لئے رولانڈ ایمرِش نے مایا تہذیب کی پیشین گوئیوں کو بنیاد بنایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں:”مَیں جانتا تھا کہ ایک مایا کیلنڈر ہے، جس کے اعتبار سے وقت کا حساب ایک مخصوص مقام پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مجھے لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ مخصوص حد سن دو ہزار بارہ بنتی ہے۔ پھر انٹرنیٹ میں ہمیں دو ہزار بارہ نامی ایک بڑی تحریک کے بارے میں پتہ چلا، جو اِنہی پیشین گوئیوں کی بنیاد پر سرگرم تھی۔ چنانچہ ہم نے اِسے اپنی فلم کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ مایا واحد تہذیب ہے، جس میں دُنیا کے خاتمے کے لئے ایک مخصوص تاریخ دی گئی ہے۔“
اُنیس سو پچپن میں جرمن شہر شٹٹ گارٹ میں جنم لینے والے رولانڈ ایمرِش نے میونخ میں فلم کی تعلیم حاصل کی۔ فلم اکیڈمی کے اختتام پر اُنہوں نے حضرتِ نوح علیہ السلام کی کشتی کو موضوع بنایا اور ایک نئی طرح کی بنیاد ڈالی۔ اپنی اگلی فلم ”مون فورٹی فور“ میں اُنہوں نے دکھایا کہ دُنیا میں تمام معدنی ذخائر ختم ہو جانے کے بعد کے حالات کیسے ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ فلم تھی، جس نے اُن پر ہالی وُڈ کے دروازے کھول دئے۔ فلم ”گوڈزِلا“ بھی اُنہی کی تخلیق تھی۔
انسانیت کو درپیش خطرات اُن کی فلموں میں مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کی فلمیں عام لوگوں کے اندیشوں ہی کا عکس ہوتی ہیں:”گذشتہ کچھ عرصے کے دوران انسانوں میں نمایاں طور پر مایوسی نظر آ رہی ہے، وہ ایک روشن مستقبل کی مزید کوئی امید نہیں رکھتے۔ اِسی لئے وہ ایسے نظریات کی طرف راغب ہوتے ہیں، جن میں دنیا کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ میری فلموں کے مرکزی کردار عام لوگ ہوتے ہیں، وہ کسی طرح کی غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے۔ وہ محض اپنی بقا کا عزم رکھتے ہیں۔ یہی چیز اِن فلموں کو پُر کشش بنا دیتی ہے۔
اور اِس تعریف پر یہ فلم یعنی ’’دوہزار بارہ‘‘ پورا اترتی ہے۔ جیکسن کرٹِس ایک کامیاب ادیب ہے لیکن وہ ساتھ ساتھ ایک امیر شخصیت کے لئے شوفر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ تاہم جب دنیا تباہی سے دوچار ہونے لگتی ہے تو وہ توقعات سے کہیں زیادہ اہم ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔
جَیک:
کیٹ، کیلی فورنیا برباد ہونے والا ہے۔کیٹ:
اُف خدایا، تم تو کسی دیوانے کی طرح باتیں کر رہے ہو۔ ہمارے صدر نے تو ابھی ابھی بتایا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔جَیک:
یہ شخص محض ایک اداکار ہے اور لکھا لکھایا مسودہ پڑھ رہا ہے۔ جب بھی یہ لوگ یہ کہیں کہ افراتفری میں پڑنے کی ضرورت نہیں، وہی وقت ہوتا ہے بھاگ نکلنے کا۔اِس فلم میں بھی حضرتِ نوح کی کشتی ہی کی طرح ایک ایسا بڑا بحری جہاز دکھایا گیا ہے، جو مقتدر حلقوں نے اپنے بچاؤ کے لئے خفیہ طور پر تیار کروایا ہوتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اِس فلم کے ذریعے رولانڈ ایمرِش نے تباہی کے مناظر کو زیادہ سے زیادہ حقیقی انداز میں دکھانے کے لئے جو خصوصی اہتمام کیا ہے، اُس میں وہ اپنی ماضی کی فلموں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن جہاں مناظر کی تصویر کشی لاجواب ہے، وہاں فلم کی کہانی کے لئے کم جگہ بچ پاتی ہے اور کرداروں کو پوری طرح سے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔
فلم ’’ ٹُو تھاؤزینڈ ٹویلو‘‘ نے افتتاحی وِیک اَینڈ پر دُنیا بھر میں 225 ملین ڈالر کا بزنس کیا ہے۔ کسی ایسی اوریجنل فلم کے لئے، جو نہ تو ’’ہیری پوٹر‘‘ کی طرح کے کسی پہلے سے مقبولِ عام سلسلے سے متعلق ہو اور نہ ہی کسی مشہور ناول پر مبنی ہو، یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ دو سو ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی اِس فلم نے جرمنی میں ابتدائی چند روز کے دوران بارہ اعشاریہ پانچ ملین ڈالر کا بزنس کیا۔