قید میں بہتر حالات مہیا کیے جائیں، شکیل آفریدی
2 دسمبر 2013اپنے وکیل کے نام خط میں شکیل آفریدی نے خود پر عائد غداری کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔ اس خط میں آفریدی نے مطالبہ کیا کہ انہیں ان کے وکیل سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ شکیل آفریدی کے وکیل سمیع اللہ آفریدی نے اپنے مؤکل کے اس مطالبے کو حقیقی اور جائز قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ شکیل آفریدی کو سن 2011ء میں ایبٹ آباد میں ایک امریکی کمانڈو آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر انہیں پاکستان سے غداری کا الزام کا سامنا تھا، تاہم انہیں ایک کالعدم تنظیم کی معاونت کے الزام میں 33 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ کچھ عرصہ قبل پشاور کی ایک عدالت نے ان کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ دوبارہ کھولنے کا حکم دیا تھا۔
شکیل آفریدی کی جانب سے اپنے وکیل کے نام لکھے گئے اس خط کی ایک نقل خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھی موصول ہوئی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اس خط میں کہا گیا ہے، ’مجھے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور حراست میں رکھا گیا۔‘
انہوں نے اپنے اس خط میں کہا کہ شاید وہ پہلے پاکستانی ہیں، جنہیں جیل میں اپنے وکیل سے ملنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے اس خط میں کہا، ’میرا یہ قانونی حق ہے کہ میں اپنے وکیل سے ملاقات کروں۔ میں ایک (حکومتی) افسر ہوں اور ایک باعزت پاکستانی شہری ہوں۔‘
اپنے اس خط میں شکیل آفریدی نے جیل میں بہتر سہولیات تک رسائی اور سکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا۔
واضح رہے کہ شکیل آفریدی نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے ایبٹ آباد میں ایک ویکسینشین پروگرام چلایا تھا، جس کا مقصد ایبٹ آباد میں قائم اس مشتبہ گھر کے افراد کا ڈی این اے حاصل کرنا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق تاہم طبی عملے کی کبھی اس گھر کے افراد تک رسائی ممکن نہ ہو سکی۔