1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لارج ہیڈرون کولائیڈر: توانائی کے اخراج کی نئی سطح

1 جولائی 2010

یورپی آرگنائزیشن برائے جوہری تحقیق (CERN) میں ایٹم کے ذیلی ذرے پروٹان کے آپس میں انتہائی برق رفتاری کے ساتھ ٹکرانے کے عمل کے دوران بے پناہ توانائی کے اخراج کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/O7PU
تصویر: picture alliance/dpa

یورپ میں قائم جوہری طبعیات کے عظیم سائنسی مرکز ’سرن‘ میں دنیا بھر کے نمائندہ جوہری سائنسدانوں نے منگل کو لارج ہیڈرون کولائیڈر میں ایٹمی ذرے پروٹان کی تیز رفتاری سے ٹکرانے کے عمل کے تازہ مشاہدے میں توانائی کے جس اخراج کا مشاہدہ کیا وہ اس سے پہلے صرف کتابوں میں مفروضے کی حد تک موجود تھا۔ تیس جون کو سات ٹریلین الیکٹرون وولٹ کی بے پناہ توانائی کا اخراج ریکارڈ کیا گیا۔

ایٹم کے ذیلی ذرے پروٹان کے لاکھوں ذرات کو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایک بیم کے ذریعے سرنگ میں دھکیلا گیا اور ان کے آپس میں ٹکرانے کا بغور مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کا ڈیٹا بھی محفوظ کیا گیا ہے۔

Quark und Physik
یورپی جوہری مرکز سرن کا کہنا ہےکہ ابھی مزید حقائق سامنے آئیں گےتصویر: AP

یورپی جوہری مرکز کے ترجمان جیمز گیلیز کے مطابق رفتار کی سطح اور توانائی کے اخراج کا سابقہ ریکارڈ جو کہ اسی لیبارٹری نے قائم کیا تھا اس کو توڑ دیا گیا ہے۔ گیلیز کا مزید کہنا ہے کہ تازہ تجربے کی شروعات پر جو ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا، اس کے مقابلے میں تازہ رفتار اور توانائی کے اخراج سے حاصل شدہ ڈیٹا کا حجم دوگنا ہو گیا ہے۔

تجربے اور نتائج کے حوالے سے یورپی جوہری مرکز ’سرن‘ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ابھی بھی ایک طرح سے ابتداء ہے کیونکہ ابھی بہت سا فاصلہ طے کرنا ہے اور تب جا کر مطلوبہ ڈیٹا سے کائنات کے آغاز کے مفروضے سے نتھی حقائق کے بارے میں بنیادی معلومات کا حصول ممکن ہو سکے گا۔

جیمز گیلییز کا کہنا ہے کہ یورپی تجربہ گاہ کی سرنگ میں جاری تجربات کے بارے میں دلچسپ معلومات کا بہاؤ عام لوگوں کے لئے مسلسل سامنے آتا رہے گا۔

تقریباً ستائیس کلو میٹر لمبی سرنگ میں ایٹم کے ذیلی ذرے پروٹان کو روشنی کی رفتار سے قدرے کم رفتارکے ساتھ ایک خصوصی بیم کے ذریعے چھوڑا جاتا ہے اور اس عمل میں لاکھوں پروٹان شامل ہوتے ہیں۔ پروٹان کے اس سفر میں تیز رفتاری کے ساتھ گھومنے اور ٹکرانے کے عمل کو کمپیوٹر کی مدد سے دیکھا جا رہا ہے۔

سائنسدان اس کوشش میں ہیں کہ تخلیق کائنات کے ساتھ منسلک بگ بینگ نظریے کی اصل ماہیت کا کسی طور اداراک کیا جا سکے۔ سردست یہ ممکن نہیں کہ بگ بینگ نظریے کی حقیقت کو جاننے میں کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس کے لئے چند سال درکار ہوں گے۔

یورپی تجربہ گاہ میں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا پر عصر حاضر کے سائنسدانوں کو برطانوی سائنسدان ہگز کے نام سے وابستہ بوزون یا ’گاڈز پارٹیکل‘ کے تصور کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ ہگز بوزون کے حوالے سے بھی یہ تجربات خاصے اہم ہیں۔

Forschungszentrum Cern: Teilchenbeschleuniger - freies Format
لارج ہیڈرون کولائیڈر میں جاری تجربات ابھی بھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔تصویر: picture alliance/dpa

لارج ہیڈرون کولائیڈر میں جاری تجربات ابھی بھی ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ اٹھارہ سے چوبیس ماہ تک پروٹان کے ٹکراؤ کے عمل سے حاصل ہونے والے محفوظ ڈیٹا پر مزید ریسرچ کا عمل شروع ہو گا اور تبھی حتمی نتائج مرتب کرنے کی تحقیقی کارروائی کا آغاز ہو گا۔ اس دوران لاکھوں پروٹان کے اربوں مرتبہ آپس میں ٹکرانے کے مرحلے کی تکمیل ہو گی۔ یورپی جوہری تجربہ گاہ میں سائنسدان اور ماہرین کا خیال ہے کہ سن 2011 ءکے بعد روشنی کی رفتار یعنی ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے پروٹان کو سرنگ میں چھوڑنے کی حد کے بعد ہی تخلیقِ کائنات کے آغاز پر ہونے والے دھماکے اور توانائی کے اخراج کا مطالعہ ممکن ہو سکے گا۔

اس رفتار سے پیدا ہونے والی توانائی سے جمع ہونے والا ڈیٹا بگ بینگ کے نظریے کی اساس فراہم کرے گا۔ اس رفتار کے ساتھ چھوڑے گئے پروٹان ہر سیکنڈ میں چھ سو ملین مرتبہ آپس میں ٹکرائیں گے اور ارب ہا ارب پروٹان ایک سیکنڈ میں ستائیس کلومیٹر لمبی سرنگ کا ایک سیکنڈ میں 11 ہزار 2 سو 45 مرتبہ چکر لگانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید