لاس ویگاس حملہ آور کا مقصد کیا تھا؟
3 اکتوبر 2017اتوار اور پیر کی درمیانی شب حملہ آور نے ہوٹل کی 32ویں منزل سے روٹ 91 ہارویسٹ میوزک فیسٹیول کے شرکاء پر فائرنگ شروع کر دی تھی۔ مانڈالے بے ہوٹل کے قریب کھلے آسمان تلے منعقدہ اس فیسٹیول میں ہزاروں افراد شریک تھے۔
لاس ویگاس پولیس کے مطابق اس واقعے میں زخمی ہونے والے 530 افراد کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے، جب کہ اس فائرنگ کی نتیجے میں اجتماع بھگدڑ مچ گئی تھی، جس سے جانی نقصان میں اضافہ ہوا۔
امریکی تاریخ کا انتہائی خون ریز واقعہ، پچاس سے زائد ہلاکتیں
امریکی طیاروں کی ’دوستانہ فائرنگ‘، تین افغان پولیس اہلکار ہلاک
امریکی تاریخ میں ’فائرنگ کا ایک بدترین واقعہ‘، پچاس ہلاک
گزشتہ برس امریکا ہی میں اورلانڈو کے نائٹ کلب میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں 4 افراد مارے گئے تھے، تاہم لاس ویگاس کا واقعہ ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے جدید امریکی تاریخ کے خون ریز ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
لاس ویگاس کی سریح الحرکت ٹیم نے ہوٹل میں حملہ آور کے کمرے میں داخل ہونے کے لیے دھماکا خیز مواد کا استعمال کیا، جہاں انہیں یہ حملہ آور مردہ حالت میں ملا۔
مقامی شیریف جوزف لومبارڈو نے اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پولیس کے کمرے میں داخل ہونے سے قبل حملہ آور نے غالباﹰ خود کو ہلاک کر لیا تھا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ ممکنہ طور پر یہ حملہ آور پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوا۔ پولیس کے مطابق حملہ آور کے کمرے سے دس رائفلیں برآمد کی گئی ہیں۔
حملہ آور کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں
پیر کے روز حکام نے اس حملہ آور کی شناخت ظاہر کی اور بتایا کہ یہ ایک 64 سالہ ریٹائرڈ اکاؤنٹنٹ اسٹیفن کریگ پیڈک تھا، جو لاس ویگاس سے 80 میل دور میسیکٹ کا رہائشی تھا۔ پولیس شیریف لومبارڈو نے بتایا کہ اس شخص کے گھر سے بھی بھاری تعداد میں ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں، جن میں 18 رائفلیں، گولہ باردو اور کئی ہزار گولیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حملہ آور کی گاڑی سے بڑی مقدار میں امونیم نائٹریٹ بھی برآمد کی گئی ہے، یہ کھاد دھماکا خیز مواد کی تیاری میں استعمال کی جاتی ہے۔
لومبارڈو کا کہنا تھا، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ اس حملہ آور کا تعلق کس عقیدے سے تھا۔ میں ایک پاگل کے دماغ کے اندر نہیں جھانک سکتا۔‘‘
لومبارڈو نے بتایا کہ پیڈک کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ پولیس کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی اس حملے سے پہلے اس کی بابت کسی بھی طرح کے شکوک موجود تھے۔
واقعے کے بعد حملہ آور کے بھائی ایرک پیڈک نے ایک امریکی نشریاتی ادارے سے بات چیت میں کہا کہ وہ فائرنگ کے اس واقعے سے دھنگ رہ گیا ہے۔ ’’میرے بھائی کا کسی مذہبی یا سیاسی گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ کسی دماغی بیماری کا بھی شکار نہیں تھا۔‘‘
دوسری جانب ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ تفتیش کاروں کو اب تک اس حملہ آور اور کسی بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کے مابین رابطوں کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس سے قبل شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ نے واقعے کے کچھ گھنٹے بعد اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ پیڈک نے اسلام قبول کیا تھا اور اس نے یہ حملہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی ایماء پر کیا۔ تاہم امریکی حکام نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے۔