’لال مسجد میں کیا ہوتا رہا‘: ایک اور پاکستانی فلم پر پابندی
30 اپریل 2016ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری سرکا ر نے پابندیوں کی فیکڑی کھول لی ہے۔ پہلے عاشر عظیم کی فلم ’مالک‘ پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی گئی کہ یہ جمہوری رہنماؤں اور لسانی اکائیوں کی منفی انداز میں منظر کشی کرتی ہے اور جہادی عناصر کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے۔
اب سینسر بورڈ کی کلہاڑی گری ہے، Among the Believers نامی ایک دستاویزی فلم پر۔ اس فلم کے ڈائریکٹر محمد علی نقوی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان میں نہ صرف فلموں پر پابندی لگ رہی ہے بلکہ ذرائع ابلاغ کی آزادیوں پر بھی قدغن لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کراچی میں ایک صحافی کی گرفتاری اِس بات کی عکاس ہے۔
محمد علی نقوی نے بتایا:’’یہ دستاویزی فلم اب تک بارہ ایوارڈز جیت چکی ہے اور بیس سے زائد ممالک میں ریلیز کی جا چکی ہے۔ اس فلم کو پاکستان میں دو روزہ Face Film Festival میں ریلیز ہونا تھا، جس کا افتتاح 29 اپریل کو ہوا۔ ہمیں 25 اپریل کو سینسر بورڈ سے خط موصول ہوا، جس میں ہمیں پابندی کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔‘‘
فلم کے بارے میں بتاتے ہوئے محمد علی نقوی نے مزید کہا، ’’یہ فلم میں نے اور میری کو ڈائریکڑ حمل تریویدی نے بنائی ہے، اس کی کہانی پاکستانیوں اور ان کی شناخت کے گرد گھومتی ہے، اس میں مولانا عبدالعزیز اور دوسرے پاکستانیوں کا تصورِ پاکستان دکھایا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تعلیم کس طرح شخصیت کو متاثر کرتی ہے۔ کہانی میں ایک بچہ جو مدرسے میں پڑھتا ہے، اس کی شخصیت کا موازنہ ایک ایسی بچی سے کیا گیا ہے، جو ایک عام سے اسکول میں پڑھتی ہے۔‘‘
نقوی کا کہنا تھا کہ ان کی فلم پر پابندی بلا جواز ہے:’’یہ فلم پاکستان کی معروضی حقیقت کو بیان کرتی ہے، اس میں صرف مولانا عبدالعزیز ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دوسرے کردار بھی ہیں۔ فلم میں ایک ایسے شخص کو بھی دکھایا گیا ہے جس نے تعلیم کے فروغ کے لیے زمین دی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں فلم کے ہدایت کار کا کہنا تھا کہ یہ فلم 86 منٹ کے دورانیے پر مشتمل ہے، جس میں 82 منٹ اسلام آباد میں شوٹ کیے گئے۔
سینسر بورڈ کے چیئرمین مبشر حسن نے پابندی کا دفاع کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’یہ دستاویزی فلم کوڈز آف سینسر بورڈ 1980ء کے خلاف ہے، اس کے علاوہ یہ موشن پکچرز آرڈیننس 1979ء کی شقوں کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے، اسی لیے اس پر پابندی لگائی گئی ہے۔‘‘
پاکستان کی سول سوسائٹی اس پابندی پر چراغ پا ہے۔ شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی فرزانہ باری نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اپنے ردِ عمل کا اظہار کچھ یوں کیا، ’’اگر کوئی فلم تشدد پر اکسائے تو اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے لیکن کسی فلم پر صرف اس لیے پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ پاکستان میں پائی جانے والی ایک مخصوص ذہنیت کے خلاف ہے۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ حکومت کو کچھ مناسب پیمانے رکھنے چاہییں، یہ نہیں ہونا چاہییے کہ حکومت جس مرضی فلم پر پابندی لگانا چاہے، لگا دے۔ میں اس پابندی کی بھر پور مذمت کرتی ہوں۔‘‘
محمد جبران ناصر، جو لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعریز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے رہے ہیں، نے اپنے ردِعمل دیتے ہوئے کہا، ’’میرے خیال میں حکومت کو پریشانی ہے کہ جب لوگ یہ فلم دیکھیں گے اور جب ان پر یہ آشکار ہو گا کہ لال مسجد کے اندر کیا ہوتا رہا ہے، تو نواز شریف حکومت پر یہ دباؤ بڑھے گا کہ وہ مولانا کے خلاف قانونی کارروائی کرے، جو وہ کرنا نہیں چاہتے، وہ حقیقت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو فلم پر اعتراضات ہیں تو آپ اِس میں کانٹ چھانٹ کر سکتے ہیں، لیکن پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ناصر نے کہا، ’’مالک فلم کا موازنہ اس سے نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اُس فلم میں سیاست دانوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے، کچھ قومیتوں کو ولن بنایا گیا ہے، وہ ایک افسانوی فلم ہے لیکن یہ دستاویزی فلم حقیقت کے قریب ہے۔ اس میں معروضی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔‘‘
اسلام آباد کے فلمی میلے میں ایک اور دستاویزی فلم ’بیسیجڈ ان کوئٹہ‘ کو بھی نمائش کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے صوبے بلوچستان میں ہزارہ برادری دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہی ہے۔