لاک ڈاؤن: پاکستانی معاشرے کو تخلیقی ہاتھوں کو تھامنا ہوگا
3 مئی 2020پاکستان میں اس وقت تھیٹر، سنیما ہالز اور آرٹ گیلیریاں بند ہیں۔ میوزک فیسٹیولز، کارپوریٹ شوز، کتاب میلے اور پینٹنگز کی نمائشیں بھی نہیں ہو رہیں۔ پرائیویٹ پروڈکشن ہاؤسز میں بھی کام ٹھپ ہے، کوئی البم ریلیز ہو رہی ہے اور نہ ہی کسی برانڈ کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کی وجہ سے آرٹ انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کی اقتصادی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پرائیویٹ ریڈیوز اور ٹی وی چینلز کے لیے روزانہ مشاہرے کی بنیاد پر کام کرنے والے سکرپٹ رائٹرز، ریسرچرز اور میوزک کمپوزر بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس صورتحال کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ابھی واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہو پا رہا کہ یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی۔ آرٹ انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت آرٹ کمیونٹی کے لیے بھی خصوصی پیکج کا اعلان کرے۔
آرٹ کی دنیا سے وابستہ متعدد لوگوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کورونا بحران کی وجہ سے لوگ صرف ضروری استعمال کی چیزیں خرید رہے ہیں اور کسی ممکنہ مشکل حالات کے لیے پیسے سنبھال رکھنے کی غرض سے ''غیرضروری‘‘ اخراجات سے اجتناب کر رہے ہیں۔ وہ آرٹسٹ جو پینٹنگز بنا کر اپنی روزی کماتے ہیں وہ ایک طرح سے ڈیلی ویجز لوگوں کی طرح ہی کام کرتے ہیں۔ اب آرٹ گیلیریاں بند ہو جانے سے نہ پینٹنگز بک رہی ہیں اور نہ ہی ان کی نمائش ممکن ہے۔
آرٹ ورک اکٹھا کرنے والے ایک بزنس مین نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کوریئر سروسز کی بندش سے وہ پینٹنگز بھجوانے کی اپنی کمٹمنٹ پوری نہیں کرسکے جس کی وجہ سے انہیں بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پینٹنگز کے کاروبار سے وابستہ لاہور کے ایک نوجوان بزنس مین حمزہ یٰسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پینٹنگز خریدنے والا کوئی گاہک مارکیٹ میں نہیں ہے۔ ان کے بقول کرائے کے مکانوں میں رہنے والے غریب اور خود دار آرٹسٹوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے: ''میرے ساتھ کوئی 25 کے قریب آرٹسٹ کام کرتے ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک تک معمولی حکومتی امداد پہنچی ہے۔‘‘
پاکستان کے ممتاز مجسمہ ساز اور کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی کے استاد حبیب عالم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ آرٹ گیلریوں کے مالکان عموماﹰ بہت امیر لوگ ہوتے ہیں، ان میں سے جو انسانی ہمدردی رکھنے ہیں وہ تو اپنے کارکنوں کا خیال کر رہے ہیں اور جو کاروباری فیزیبیلٹی کا دھیان رکھنے والے ہیں وہ معاشی مشکلات کا جواز بنا کر کارکنوں کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔
پاکستان کی ایک معروف آرٹسٹ عنبرین کرامت ایک آرٹ کنسلٹنٹ ہیں اور ایک ایسی کمپنی کی مالک ہیں جو پاکستانی آرٹ کو پرموٹ کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنی خصوصی گفتگو میں بتایا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں لوگ آرٹسٹوں کا نہیں بلکہ اپنا فائدہ سوچتے ہیں۔ ان کے بقول مشکل کے اس دور میں بھی بعض لوگ آرٹسٹوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اونے پونے داموں پینٹنگز خریدنے کے لیے سرگرم ہیں: ''پاکستان میں ہر سال دو سو آرٹسٹ آرٹ کی تعلیم حاصل کرکے نکلتے ہیں لیکن ان کے لیے بس ایک دو ہی ڈھنگ کی گیلیریاں ہیں۔ کمرشل گیلیریوں والے آرٹ کو کاروباری انداز میں ہی دیکھتے ہیں۔ اس لیے آرٹسٹ تدریس وتعلیم یا میڈیا وغیرہ سمیت دوسرے شعبوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔‘‘
عنبرین کرامت کے بقول، ''میں نے حال ہی میں سو سال پہلے آنے والی وبا کے حالات کا مطالعہ کیا ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس دور میں بھی وبا کے بعد آرٹسٹوں کی بحالی کے لیے حکومتوں نے خصوصی کوششیں کی تھیں، آرٹسٹ ہمارے ثقافتی سفیر ہوتے ہیں۔ ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ ان مشکل دنوں میں ان کی سرپرستی کرے اور اس سلسلے میں خصوصی طور پر پوسٹ کورونا قومی آرٹ پالیسی بنا کر آرٹسٹوں کے لیے مراعات کا اعلان کرے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں ابھی تک یہ نہیں آیا کہ حکومت نے کسی آرٹسٹ کی مناسب امداد کی ہو: ''ہم اپنے طور پر کچھ عالمی فلاحی اداروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے ذریعے پاکستانی آرٹسٹوں کی مدد کی جاسکے۔‘‘
عنبرین کرامت کےمطابق، ''میں نیویارک سے آرٹ میں ماسٹر کر کے جب پاکستان واپس آنے لگی تو میں نے آخری دن اپنا میل بکس چیک کیا تو اس میں ایک لفافہ تھا ، میں نے لفافہ کھولا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس میں دو ہزار ڈالر کا ایک چیک تھا ، میرے پوچھنے پر مجھے یونیورسٹی کی طرف سے بتایا گیا کہ آپ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں جا رہی ہو، یہ ایک 'سِیڈ منی‘ ہے جسے آپ اپنے کیرئیر کو مستحکم کرنے میں استعمال کریں۔ دوسرے ملکوں میں فن اور ثقافت کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آرٹسٹ مشکلات میں گھرے رہتے ہیں، اگر ہم پاکستان کے آرٹسٹوں کو کوئی گرانٹ یا ملازمت دے کر معاشی پریشانیوں سے آزاد کر دیں تو یقین مانیں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے پاکستانی ثقافت کو اجاگر کر کے ہمارے سافٹ امیج کو یوں اجاگر کریں گے کہ ہم اس پر فخر کر سکیں گے۔‘‘