1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاکھوں شامی شہری فرار ہو کر ترکی کی طرف سفر میں، صدر ایردوآن

2 جنوری 2020

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں روسی اور شامی حکومت کی جانب سے کی جانے والی بمباری کے باعث قریب ڈھائی لاکھ تارکین وطن ترکی کی طرف چل پڑے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Vbtz
تصویر: picture-alliance/AA/H. Sagirkaya

ترکی 37 لاکھ شامی مہاجرین کو پہلے سے ہی  پناہ دیے ہوئے ہے۔ اب شام میں بمباری کے پیش نظر تارکین وطن کی ایک اور لہر ترکی کی طرف رواں ہے۔ ترک صدر کا کہنا ہے کہ وہ اس لہرکو ترکی آنے سے روکنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ  2 لاکھ 84 ہزار مہاجرین نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ادلب میں تیس لاکھ شامی شہری آباد ہیں۔ ترک صدر نے انقرہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا،'' اس وقت دو سے ڈھائی لاکھ افراد ترکی کی طرف رواں ہیں۔ ہم انہیں روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہت مشکل ہے کیوں کہ وہ بھی انسان ہیں۔‘‘  

شام کے کئی چھوٹے بڑے شہر اور دیہات روس اور شام کی جانب سے بمباری کا شکار ہیں۔ گزشتہ ماہ شامی حکومت نے ترکی، ایران اور روس کے مابین امن کی بحالی کی کوششوں کو بڑھانے کا عزم کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود شامی حکومت اور روس کی جانب سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔

ٹرمپ کا ادلب میں ہلاکتوں پر روس، شام اور ایران کو انتباہ

شمال مغربی شام میں سوا دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر

بدھ کو ادلب میں شامی فوج کے میزائیل حملے میں  پانچ بچوں سمیت، آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے،'' سردی کی شدت نقل مکانی کرنے والے افراد کی مشکلات کو مزید بڑھا رہی ہے۔ بہت سے افراد کو گرم کپڑوں، خیموں اور کھانے پینے کے اشیاء کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

شامی صدر بشار الاسد جنہیں روس اور ایران کی پشت پناہی حاصل ہے، نے ادلب پر دوبارہ قبضہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ترکی کئی سالوں سے ان باغیوں کی مدد کر رہا ہے جو بشار الاسد کے خلاف  لڑ رہے ہیں۔ ترک صدر نے گزشتہ ماہ یورپ کو کہا تھا کہ اگر شام میں بمباری نہ رکی تو تارکین وطن کی آمد سے ترکی ہی نہیں یورپ بھی متاثر ہو گا۔ ماسکو اور دمشق دونوں ہی عام شہریوں پر بمباری کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی جنگ القاعدہ سے متاثر  مسلم عسکریت پسندوں سے ہے۔

ب ج، ک م (روئٹرز)