لاکھوں مہاجرین کو ملک بدر کرنا پڑے گا، جرمن وزیر
27 اگست 2016باویریا کے وزیرخزانہ مارکُس سؤڈر نے جرمن جریدے ’ڈیر اشپیگل‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی پوری کوشش کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کا انضمام ممکن نہیں بنا سکتا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم جتنی بھی کوشش کر لیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ جرمن معاشرے میں مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کا کامیاب انضمام ممکن ہو گا۔‘‘
انہوں نے اس کی ایک وجہ یہ بتائی کہ جرمنی پہنچنے والے یہ مہاجرین مختلف طرح کی ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں اور جرمن معاشرے میں بھرپور شمولیت اختیار کرنا ان کے لیے مشکل ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کبھی نہ کبھی شامی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی اور ان مہاجرین کو واپس ان کے آبائی ملک بھیجا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کو بھی اب ان کے آبائی ممالک واپس بھیجا جا سکتا ہے کیوں کہ اب وہاں حالات ’قدرے بہتر‘ ہو چکے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس شام، عراق اور افغانستان سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ملین سے زائد مہاجرین جرمنی پہنچے تھے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجرین دوست پالیسی کے تحت ان جنگ زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کے لیے جرمن سرحدیں کھول دی گئی تھیں، جب کہ ان مہاجرین کو سیاسی پناہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں چانسلر میرکل کو بھی اپنی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو اور اس جماعت کی باویریا صوبے میں اتحادی جماعت سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاست دانوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا بھی رہا ہے۔
چانسلر میرکل کا کہنا ہے کہ ایسے مہاجرین، جن کو ان کے آبائی ممالک میں زندگی کے خطرے کا سامنا ہے، انہیں جرمنی میں سیاسی پناہ دی جائے گی۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں جرمنی میں سیاسی پناہ کے قوانین میں کسی حد تک سختی بھی لائی گئی ہے۔