پنجاب میں سموگ کے سبب نافذ سمارٹ لاک ڈاؤن میں تبدیلی
9 نومبر 2023
پنجاب کی صوبائی حکومت نےسموگ پر قابو پانے کے لیے 'سمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی طرز پر سخت اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان اعلانات کے مطابق آلودگی پر قابو پانے کے لیے جمعرات کے روز متاثرہ علاقوں میں گاڑیوں کی آمدورفت اور شہریوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں پنجاب کے وزیراعلٰی محسن نقوی نے اعلان کیا کہ 9 نومبر کو یوم اقبال کی وجہ سے حکومت سمارٹ لاک ڈاؤن ضوابط میں نرمی لا رہی ہے۔
جمعرات کی شام کو جاری کیے جانے والے محکمہ پرائمری ہیلتھ کیئر پنجاب کے ترمیمی نوٹیفکیشن کے مطابق اب کال سینٹرز اور انٹرنیشنل آئی ٹی سینٹرز کو بھی کام کی اجازت دی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق 8 اضلاع میں مارکیٹس جمعرات اور جمعہ کے روز بھی کھلی رہیں گی۔ اور کاروباری مقامات پر معمول کے مطابق کام ہوگا۔ اس کے علاوہ ریستوراں، سنیما ہالز اور جِم بھی آج معمول کے مطابق کھلے رہیں گے۔ ایک اور حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق شاپنگ مالز سمیت مارکیٹیں ہفتے اور اتوار کو بند رہیں گی۔
محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیرکے ایک اور نوٹیفکیشن کے مطابق کال سنٹر ز اور انٹر نیشنل آئی ٹی سنٹرز 10نومبر کی عام تعطیل سے مستثنیٰ ہوں گے۔ میڈیکل اسٹورز، فارمیسیز،ویکسی نیشن سنٹرز، پٹرول پمپس، تندور، بیکریاں، کریانہ اسٹورز ،چکن اور میٹ شاپس بھی 10 نومبر کی عام تعطیل کے دوران کام کر سکیں گی۔ تاہم اس دوران سارے سرکاری و نجی ادارے اور تعلیمی ادارے بدستور بند رہیں گے۔
یاد رہے جزوی لاک ڈاؤن میں تبدیلی سے ایک دن پہلے پنجاب کے وزیر اعلٰی محسن نقوی نے متاثرہ علاقوں کے عوام سے اگلے چار دنوں تک گھروں میں رہنے اور بلا ضرورت باہر نہ نکلنے کی اپیل کی تھی اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ سموگ پر قابو پانا بہت ضروری ہے اور لاہور کی زمین کو ماحولیاتی ریسٹ کی اشد ضرورت ہے۔
صوبائی دارالحکومت میں سموگ میں کمی لانے کے لیے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، اور آلودگی کا باعث بننے والی فیکٹریوں اور اینٹوں کے بھٹوں کے خلاف شروع کیا جانے والا آپریشن اب بھی جاری ہے۔ پنجاب حکومت نے لاہور، شیخوپورہ، قصور، گوجرانوالہ، حافظ آباد ، سیالکوٹ اور نارووال سمیت متعدد اضلاح میں ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کی ہوئی ہے ۔ سموگ سے متاثرہ علاقوں میں عدالتیں اور بنک بھی بند کر دیے گئے تھے۔
جمعرات کی صبح موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں فضائی آلودگی کے حوالے سےلاہور شہر دوسرے نمبر پر تھا اور یہاں ایئر کوالٹی انڈکس چار سو انسٹھ تک پہنچ چکا ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر اور خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ لاہور سے اوپر صرف بھارت کا شہر دہلی ہے جہان ایئر کوالٹی انڈکس کی ویلیو پانچ سو سینتالیس تک پہنچ چکی ہے۔
یاد رہے کہ طبی ماہرین کے مطابق ایئر کوالٹی انڈکس کی صفر سے پچاس تک کی ویلیو بہت اچھی، اکاون سے ایک سو تک قابل اطمینان جبکہ اس کی ایک سو ایک سے لے کر ایک سو پچاس تک کی ویلیو حساس لوگوں کے لیے طبی مسائل کا باعث بنتی ہے ۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کی ایک سو اکاون سے دو سو تک کی ویلیو والی فضا کے حامل شہروں کو غیر صحت مندانہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ دو سو ایک سے تین سو کی ویلیو پر ان شہروں کو انتہائی غیر صحت مندانہ یا مضر صحت قرار دیا جاتا ہے۔ تین سو ایک سے اوپر والی ویلیو رکھنے والے شہروں کی فضا کو صحت کے لئے خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔
پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے شہریوں سے کہا ہے کہ باہر نکلنے کی صورت میں وہ عینک اور ماسک کا استعمال کریں، چہرے اور ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھوئیں، اپنے گھر اور دفاتر کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔ اور کمروں میں ہوا کی صفائی والے آلات استعمال کریں۔
لاہور شہر کے ہسپتالوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق شہریوں کی بڑی تعداد (جن میں بچوں اور بڑی عمر کے افراد کی زیادہ تعداد شامل ہے) سانس، گلے ، جلد اور آنکھوں کی تکالیف کی شکایات کے ساتھ ہسپتالوں میں آ رہے ہیں۔ سینیئر فیزیشن ڈاکٹر محمد خورشید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سموگ کہ وجہ سے کئی شہری آنکھوں میں چبھن محسوس کر رہے ہیں، سانس کے مریضوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے اسی طرح بعض مریض گلے کی خرابی اور دیگر بیماریوں کے ساتھ ہسپتالوں میں آ رہے ہیں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ''عینک اور ماسک سے شہریوں کو کچھ ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن آلودہ ہوا سے مکمل طور پر بچنا ممکن نہیں ہے۔‘‘ یاد رہے لاہور کے بعض علاقوں سے ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ لوگ عارضی طور پر دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ سروسز ہسپتال کے قریب موجود شفقت نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ ان کے بوڑھے ماں باپ مریض ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے وہ انہیں اسلام آباد شفٹ کر رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ڈائریکٹر ماحولیات پنجاب سلیم الرحمٰن شاہ نے بتایا کہ جب درجہ حرارت کم ہوجاتا ہے تو فضا میں موجود آبی بخارات یا نمی کے قطرے دھند کی شکل اختیار کر لیتے ہیں ۔ جب زمین سے اٹھنے والا ( موٹر گاڑیوں، اینٹوں کے بھٹوں اور فصلوں کی باقیات جلانے سے بننے والا) آلودگی کا دھواں ان میں شامل ہوتا ہے تو وہ سموگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ سموگ کا باعث بننے والی آلودگی کا زیادہ حصہ یعنی (تینتالیس فی صد) ٹریفک سے آتا ہے اور کئی مقامی صنعتیں (پچیس فی صد) آلودگی کے ساتھ سموگ میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ان کے مطابق نومبر کے مہینے میں سموگ کے خطرناک سطح پر پہنچنے کی وجہ یہ ہے کہ ان دنوں دھان کی فصل کی باقیات کو جلا کر تلف کرنے کا سلسلہ عروج پر پہنچا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بھارت میں اس فصل کی باقیات کو جلانے کا عمل پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے اور مشرقی پنجاب سے آنے والی ہواؤں کا رخ اٹھائیس اکتوبر کے بعد پاکستان کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس لیے سموگ پہلے بھارت کو متاثر کرتی ہے پھر پاکستان کی طرف آ جاتی ہے۔‘‘
یاد رہے پنجاب کے محکمہ ماحولیات نے سموگ کی صورتحال کو مانیٹڑ کرنے کے لیے ایک کنٹرول روم بھی قائم کیا ہے جہاں پر ناسا کی تصویروں اور موسم کی صورتحال کا تجزیہ کرکے حکام کو صورتحال کی بہتری کے لیے سفارشات دی جاتی ہیں۔