لاہور میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی
4 دسمبر 2012پاکستانی شہر لاہور میں احمدیوں کے ایک قبرستان پر مسلح افراد کی جانب سے حملے اور وہاں موجود قبروں کی بے حرمتی کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا کہ اس سے پاکستان میں بالعموم مذہبی اقلیتوں اور بالخصوص احمدیوں کے خلاف انتہاپسندوں کی نفرت واضح ہوتی ہے۔
احمدیوں کے ترجمان سلیم الدین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ قریباً ایک درجن کے قریب مسلح افراد نے پیر کے روز لاہور کے ماڈل ٹاؤن نامی علاقے میں احمدیوں کے قبرستان پر دھاوا بولنے کے بعد وہاں ایک سو بیس کے قریب قبروں کے کتبے توڑ ڈالے اور قبروں کی توہین کی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سن انیس سو چوہتر میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں احمدیوں کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
سلیم الدین کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل فیصل آباد میں اسی طرح کے واقعات پیش آئے تھے مگر پولیس نے اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے، ’’حکومت ہمارے انسانی حقوق اور جان و مال کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے احمدی شہری شاہد عطا اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلح افراد نے قبرستان کی رکھوالی پر معمور شخص سے کہا کہ وہ مسلح تنظیم لشکر طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چوکیدار کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ قبروں پر حملہ اس لیے کر رہے ہیں کہ ان قبروں کے کتبوں پر احمدیوں نے قرآنی آیات کیوں کندہ کی ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی واقعے سے لا علم ہیں اور شواہد ملنے پر اس ضمن میں کارروائی کریں گے۔
امتیازی سلوک
مئی دو ہزار دس میں لاہور ہی میں مسلح افراد نےاحمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کر کے کم از کم سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
پاکستان میں احمدیوں کی نمائندہ تنظیم جماعت احمدیہ نے اِمسال مئی میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں احمدیوں پر تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار گیارہ میں چھ احمدیوں کو ہلاک جب کہ بیس کو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (نواز گروپ) سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹ کے رکن ریاض فیتیانہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی آئین کی پچیسویں شق تمام شہریوں کے لیے یکساں حقوق کو ریاستی ذمہ داری قرار دیتی ہے تاہم اصل مسئلہ آئین پر عمل درآمد کا ہے۔
تاہم بعض مبصرین کے مطابق پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کی وجہ سے احمدیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے عوامی آگاہی میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
(shs / as (AFP, DW