لاہور میں تین روزہ فیض میلہ ختم
17 نومبر 2019اس میلے کا اہتمام فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ نے لاہور آرٹس کونسل کے تعاون سے کیا تھا۔ فیض میلے کے دوران الحمرا آرٹس سينٹر کی عمارت کو فیض احمد فیض کی تصویروں اور ان کے کلام پر منبی بینروں سے سجایا گیا تھا۔ اس میں ادب وسیاست، آرٹ، کلچر، تھیٹر اور ڈرامہ سمیت فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کے دو سو سے زائد ماہرین نے اظہار خیال کیا۔
اس تناظر میں الحمرا آرٹ گیلری میں ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا جبکہ اس میلے میں کتابوں کے سٹالز بھی لگائے گئے۔ اس میلے میں اجوکہ تھیٹر کی طرف سے ایک سٹیج ڈرامہ ''سائرہ اینڈ مائرہ‘‘ بھی پیش کیا گیا۔
فیض میلے میں شریک ایک نوجوان محمد عاصم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ میلہ معاشرے کو درپیش مسائل کے حوالے سے ایک بامقصد مکالمے کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے دانشوروں، لکھاریوں اور فنکاروں کو مل بیٹھنے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔
ایک اور نوجوان ایاز گل کا کہنا تھا کہ فیض احمد فیض کی شاعری میں پنہاں پیغام کو سمجھنے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں فیض فیسٹیول کے لیے کارپوریٹ سیکٹر کی معاونت سے یہ پیغام اب زیادہ نوجوانوں تک پہنچانا ممکن ہو گیا ہے۔
میلے کے آخری دن پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک مذاکرے میں سابق چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سویلین بالا دستی ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس اور بجٹ کے امور میں قانون سازی تو پارلیمنٹ نے کرنا ہوتی ہے لیکن تاجر برادری چیف آف آرمی سٹاف سے جا کر ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سویلین حکومت کے پاس مکمل اقتدار کبھی بھی نہیں رہا۔ ان کی رائے میں اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر ملک کے لیے کام کرنا چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے اندر جمہوریت لانی چاہیے اور موروثی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر اصلاحات کرنی چاہییں اور نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے۔ ان کے بقول سول اور ملٹری بیوروکریسی نے کبھی بھی پاکستان کے آئین کو نہیں مانا اور اس وقت بھی پاکستان میں غیر اعلانیہ طور پر مارشل لا کی سی صورتحال ہے،'' ہمیں اگر ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے حقیقی جمہوریت کو بحال کروانا ہوگا اور بیس کروڑ عوام کو اپنا ملک واپس لینا ہو گا۔‘‘
اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ نون کی عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان میں وعدے پورے نہیں ہو سکے اور چودہ مہینوں میں دس لاکھ لوگوں کی نوکریاں ختم ہو گئیں، چالیس لاکھ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے چلے گئے۔ ان کے خیال میں معاشی ایجنڈہ سیاست سے بالاتر ہونا چاہیے اور ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر معاشی مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
اس میلے کے ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہا،''عوام کے مفاد کی بات کرنا سیاستدان کا مطمع نظر ہی نہیں اسی لیے ہمیں تعلیم، صحت و دیگر شعبوں میں تیز رفتار بہتری نظر نہیں آرہی ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے بغیر پاکستان نہیں چل سکتا پارلیمان بالادست ہونی چاہیے لیکن یہاں صرف یہی بات ہوتی رہتی ہے کہ ادارےطاقتور ہیں یا سویلین حکومت۔ ان کے مطابق آج کی کلیدی سیاسی جماعتوں کے منشور میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ جب ان کی جماعت نے ایوان صدر سے پارلیمان پر شب خون مارنے کا دروازہ بند کیا تو عدلیہ کے ذریعے دو جمہوری وزرائے اعظم گھر بھجوا دیے گئے۔ ان کے بقول مزاحمت کی سیاست ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ میڈیا کی کمرشلائزیشن سے مزاحمتی صحافت کمزور ہو گئی ہے۔
سیاسی پابندیوں کے دور میں آزاد صحافت کے موضوع پر منعقدہ سیشن میں صحافی حامد میر نے کہا کہ سچ انتہائی طاقتور ہوتا ہے اور جب سچ بولا جاتا ہے تو یہ عوام میں مقبول ہوتا ہے،''صحافت اگر اشاروں پر چلنا شروع کردے تو پیغام صحیح طریقے سے نہیں پہنچتا۔ صحافت کو انگلیوں پر نچانے والوں نے اسے شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘‘
ممتاز تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ شک ہے کہ صحافت کے ساتھ ساتھ ملک بھی آزاد نہیں ہے،'' محسوس ہوتا ہے کہ پورے ملک کی ویڈیو فائل مرتب کی جا چکی ہے، غیر پیشہ ور عطائیوں نے صحافت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے‘‘ ۔
وسعت اللہ خان نے کہا کہ غیر تربیت یافتہ صحافی اور غیر پیشہ ور مالکان اظہار رائے کا غلط استعمال کررہے ہیں،''اس وجہ سے ہمیں اپنی برادری سے بھی ڈر لگنے لگا ہے اور صحافت کا معیار گر گیا ہے میرا تو خیال ہے کہ ریٹنگ کے بغیر بھی موثر ابلاغ ہوسکتا ہے۔‘‘
اس میلے کے آغاز پر گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں فیض احمد فیض کی گورنمنٹ کالج کے حوالے سے یادوں کو تازہ کیا گیا۔ فیض احمد فیض کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی نے اس موقع پر بتایا کہ فیض احمد فیض عمر بھر اپنے گورنمنٹ کالج کے اساتذہ کا دم بھرتے رہے، پطرس بخاری اور صوفی تبسم سے تو ان کا قریبی تعلق تھا۔