لاہور میں جرمن فلم فیسٹیول
1 اکتوبر 2010اس میلے کا اہتمام مقامی جرمن ثقافتی مرکز آنے ماری شمل ہاؤس نے نیشنل کالج آف آرٹس کے تعاون سے کیا ہے۔ اس میلے کے پہلے روز معروف جرمن فلم When We Leave دکھائی گئی۔
کئی ایوارڈ حاصل کرنے والی اس جرمن فلم کو 2011 کے آسکر ایوارڈز کے لئے بھی نامزد کیا جا چکا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے پس منظر میں بنائی جانے والی اس فلم میں ایک ترک نژاد جرمن لڑکی کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو شادی کے بعد اپنے کشیدہ گھریلو حالات سے تنگ آ کر استنبول سے اپنے والدین کے گھر برلن آ جاتی ہے۔
یہ لڑکی اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنے کی جدوجہد کرتی ہے۔ لیکن بعض سماجی رویے قدم قدم پر اس کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہتے ہیں۔برلن سے آئی ہوئی اس فلم کی خاتون ڈائریکٹر فیو آلاڈا نے بتایا کہ وہ اس فلم کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر کے انسانی رویوں میں تبدیلی لانے کی خواہشمند ہیں۔ فیو آلاڈا اس سے پہلے ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ رہی ہیں اور وہ خواتین پر تشدد کے خلاف بھی جدو جہد کرتی رہی ہیں۔
لاہور میں آنے ماری شمل ہاؤس کی ڈائریکٹر نادیہ ریاض نے بتایا کہ اس میلے کے ذریعے پاکستانی شائقین کو عالمی معیار کی فلمیں دیکھنے کا موقع ملا ہے۔
نیشنل کالج آف آرٹس کے ایک استاد ضیا احمد کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ستائے ہوئے ملک میں، ڈر اور خوف کے لمحات میں، اس میلے کا انعقاد آرٹ کی پذیرائی کرنے والے شائقین کو بہت اچھا لگا ہے۔ ان کے مطابق ایسے میلوں کے انعقاد سے خود پاکستان کا امیج بھی بہتر ہو گا۔
اس جرمن فلمی میلے میں موجود ممتاز پاکستانی اداکارہ ثمینہ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ایسے میلے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور بہتر طور پر سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ان مواقع پر سب کے دل ایک ہی طرح سے دھڑکتے ہیں اور سب ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔
ان کے مطابق گھروں، ملکوں اور دنیا بھر میں امن قائم کرنے کے لئے آرٹ سے مدد لی جانی چاہئے۔ ثمینہ پیرزادہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ زندگی بہت خوبصورت ہے، اسے تصادم کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہئے بلکہ اسے محبت کے لئے وقف ہونا چاہئے۔لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس میں اہتمام کردہ یہ جرمن فلمی میلہ دو اکتوبر تک جاری رہے گا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں