لاہور میں داتا گنج بخش کا عرس، سخت حفاظتی انتظامات
24 جنوری 2011گذشتہ برس داتا گنج بخش کے مزار اور اس سے ملحقہ مسجد میں خونریز دہشت گردی کے بعد پہلی مرتبہ ہونے والے اس عرس کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات دیکھنے میں آرہے ہیں۔
حضرت علی ہجویری کے سالانہ عرس کے موقع پرپہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ داتا دربار کو جانے والے تمام راستےتین دن کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔
ایس پی سٹی ٹریفک امتیاز سرور کے مطابق زائرین کی سکیورٹی کے پیش نظر دربار اور اس کے ارد گرد کے تمام علاقوں میں ہر قسم کی ٹریفک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ زائرین اپنی گاڑیاں دور پارک کر کے پیدل دربار پہنچ رہے ہیں۔
داتا دربار آنے والوں کو ایک واک تھرو گیٹ سے گذارا جا رہا ہے اور دربار کے احاطے میں داخلے سے پہلے ان کی میٹل ڈیٹیکٹرز سے تلاشی بھی لی جا رہی ہے۔ دربار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سکیورٹی کیمرے بھی لگائے گئے ہیں۔
دربار پر آئے ہوئے عقیدت مندوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھاری نفری کے علاوہ محکمہ اوقاف کے سکیورٹی گارڈز، رضا کار اور پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکار بھی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔
ایس پی سٹی شہزاد آصف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ دربار پر آنے والے لوگوں کی چار مرتبہ تلاشی لی جا رہی ہے۔ ’’دربار کے ارد گرد بم ڈسپوزل یونٹ کے اہلکار بھی چیکنگ کر رہے ہیں۔ ایک کنٹرول روم بنا کر تیس سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے پورے علاقے کی لائیو مانیٹرنگ بھی کی جا رہی ہے۔‘‘
ان کے مطابق لاہور پولیس نے انتظامیہ سے علاقے کی فضائی نگرانی کی درخواست بھی کی ہے۔ علی ہجویری کے سالانہ عرس کے موقع پر حضرت امام حسین کے چہلم کی تقریبات کی وجہ سے بھی حفاظتی انتظامات سخت تر کر دیے جاتے ہیں۔
بعض تاجروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کی وجہ سے ان کی دکانیں بھی بند کرا دی گئی ہیں۔ پنجاب میں مذہبی امور کے ڈائریکٹر جنرل طاہر بخاری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس مرتبہ عرس کی تقریبات میں شرکت کے لیے نہ صرف ملک بھر سے پانچ سو سے زائد علماء، مشائخ اور نعت خواں شریک ہیں بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں سے آئے ہوئے عقیدت مندوں کے علاوہ بھارت سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے درباروں کے سجادہ نشین بھی عرس کی تقریبات میں شریک ہیں۔ ان کے مطابق لوگ کسی ڈر اور خوف کے بغیر روایتی عقیدت اور محبت سے بڑی تعداد میں اس عرس کی تقریبات میں حصہ لے رہے ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں