لاہور میں میٹرو بس کے بعد اب میٹرو ٹرین
22 مئی 2014پنجاب کے وزیر اعلٰی شہباز شریف اور چین کے ترقیاتی اصلاحات سے متعلق قومی کمیشن کے چیئرمین نے آج جمعرات کے روز شنگھائی میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔ پاکستانی صدر ممنون حسین اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ بھی دستخطوں کی تقریب میں موجود تھے۔
معاہدے کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس سے عوام کو جدید اوربہتر سفری سہولیات میسر آئیں گی۔ اس منصوبے کے مطابق لاہور میں قائم میٹرو بس سروس کے روٹ پر ہی فلائی اوورز کی مدد سے27.1 کلو میٹر طویل ٹریک بچھایا جائے گا۔
تاہم بعض حلقوں کی جانب سے میٹرو بس سروس کی طرح میٹرو ٹرین کے منصوبے کی بھی مخالفت کی جارہی ہے۔
مخلتف معاملات پر عدالتوں میں مفاد عامہ کی درخواستیں دائر کرنے والے لاہور سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے وکیل اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ شریف برادران میٹرو کے بخار میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لاہور شہر اور اس کے شہری ابھی میٹرو بس کی وجہ سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات سے نہیں سنبھلے کہ اب میٹرو ٹرین کی افتاد آن پڑی: ’’لاہوریوں کو جو ضرورت ہے وہ صاف پانی کی ضرورت ہے۔ انہیں صحت، مفت تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ جو معاملہ ہے میں آپ کو یقینی طور پر بتا دوں کہ ہم ڈیٹا اکھٹا کر رہے ہیں اور انشا ءاللہ بہت جلد ہم اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔‘‘
ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ ذرائع مواصلات کی بہترین سہولیات ملکی ترقی کا مظہر ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں توانائی کا شدید بحران ہے جس کی وجہ سے معیشت کا برا حال ہے وہاں ایسے منصوبے پہلی ترجیح نہیں ہو سکتے: ’’جو ہمارے پہلے دس مہینے گزرے ہیں اس میں بیرون ملک سے جو براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) وہ پھچلے سال جب بہت خراب صورتحال تھی اس سے بھی 13 فیصد کم ہے۔ میں یہ سمھجتا ہوں کہ اس طرح کی باتیں پاپولر تو ہو سکتی ہیں مگر معیشت اور عام آدمی کے نقطہء نظر سے یہ صیح ترجیحات نہیں ہیں۔‘‘
تاہم دوسری جانب حکومتی اراکین کا مؤقف ہے کہ لاہور جیسے گنجان آبادی والے شہر میں سفری سہولیات کو جتنا اپ گریڈ کیا جاسکے اچھا ہے۔ لاہور کے ایک حلقے سے مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر کا کہنا ہے کہ شہر کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ابھی سے سفری سہولیات کی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آنے والے وقتوں میں گزرا مشکل ہو جائے گا: ’’ہر پہلو سے حکومت دیکھتی ہے اور ہر معاملے پر کام کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ پانی، ایجوکیشن یا ہیلتھ کو نظر انداز کر دیں۔ یہ ٹرانسپورٹ بھی تو عوامی مفاد کی بات ہے۔‘‘
ناقدین اس بات پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہونے کی وجہ سے ہر اہم اور بڑا منصوبہ لاہور شہر میں ہی شروع کیا جاتا ہے۔ تاہم شیخ روحیل اصغر اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’چاروں صوبوں میں مخلتف جماعتوں کی حکومتیں ہیں اور اگر پنجاب کے علاوہ کوئی دوسری صوبائی حکومت بھی عوامی فلاح کا منصوبہ شروع کرے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ تو حکومت پر منحصر ہے کہ وہ عوام کو سہولت دینے کے لیے کس طرح کے منصوبے شروع کرتی ہے۔‘‘