1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور کا چاند اب شاعروں کا چاند نہیں رہا

21 نومبر 2019

سردیوں کی ٹھنڈی ٹھٹھرتی راتوں کا چاند ہو یا گرمیوں کی طویل راتوں میں چھت کی منڈیروں سے چھنتی دودھ سی چاندنی، شاعروں کا چاند اور چاندنی کے ساتھ ہمیشہ سے ایک تعلق رہا ہے، ایک واسطہ رہا ہے، محبت رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3TTF8
Island Flugzeug Vulkan
تصویر: AP

پروین شاکر کہتی ہیں،

برگد کی اک شاخ ہٹا کر

جانے کس کو جھانکا چاند

بادل کے ریشم جھولے میں

بھور سمے تک سویا چاند

جس شہر لاہور کے بارے ناصر کاظمی نے کہا تھا،

 شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

لیکن اس شہر لاہور کا چاند دھندلا کیوں گیا، گہنا کیوں گیا؟

جہاں شاعروں کی شاعری ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں وہیں لڑکپن سے بڑھاپے تک کی محبتیں بھی چاند اور چاندنی کے مرہون منت رہیں۔ یہ رومانوی خیالات اس وقت میرے ذہن کے نہاں خانوں سے نکلے، جب بون کی حسین شام کے شفاف آسمان پر دودھ میں نہایا چودھویں کا چاند میری نظروں کے سامنے تھا۔ گو کہ سردیوں میں  جرمنی کے سابق دارالحکومت بون کا آسمان اکثر بادلوں سے ڈھکا نظر آتا لیکن جب بھی بادلوں کی اوٹ چاند اپنی جھلک دکھلائے تو یاد آتا ہے کہ ایسا شفاف نیلا آسمان اور ایسا بڑا روشن چاند ہم بچپن میں لاہور کے گھر کی چھت پر دیکھا کرتے تھے۔

DW Bloggerin l Aaliya Shah
عالیہ شاہتصویر: DW/A. Awan

اس وقت ابھی زندگی اتنی مشینی نہیں ہوئی تھی اور خوشگوار موسموں کی شامیں اور راتیں رومانویت کی ہلکی آنچ پر پکا کرتی تھیں۔ لوگ سرگوشیوں میں باتیں بھی کرتے تھے۔ بچے چھت پر بچھنے والی چاندنیوں پر لوٹا کرتے اور چاند کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا کرتے۔ منڈیروں پر دیے سے جل اٹھتے تھے۔ ماضی کے ان جھروکوں سے جگنو بھی جھانکتے ہیں اور رات کی رانی کی خوشبو بھی۔

آج کے لاہور کا چاند دھندلا کیوں گیا؟ سموگ میں ڈوبا لاہور اپنی تمام رومانویت کھو بیٹھا ہے۔ آسمان سموگ کے اس زہر سے اتنا ابر آلود اور دھندلا نظر آتا ہے کہ شاید ہی آپ کو چاندنی چٹکی ہوئی دکھائی دے گی۔ حالانکہ کبھی لاہور کی سردیوں کی شامیں بہت حسین ہوا کرتی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے کھڑے ہو کر سوپ پینے اور منہ سے بھاپ نکلتی دیکھنے کا لطف ہی اور تھا۔  گویا لاہور کی سردیاں ایک تہوار کی طرح آیا کرتی تھیں۔ لیکن اب آپ لاہور کی سردیوں میں منہ ڈھانپے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے کسی بلا کے خوف سے منہ چھپا رکھے ہیں اور ایسا ہی ہے، اس بلا کا نام ہے سموگ۔

آپ کسی بھی ملک جاتے ہیں تو سب سے پہلے وہاں کے موسم اور فضا سے متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ شہروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کی فضا کی خوشبو لوگوں کو بہت متاثر کرتی ہے۔ لاہور کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ یعنی اس نے کچھ نہیں دیکھا ۔ لیکن افسوس کے ساتھ اب یہ محاورہ دم توڑتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ اب لاہور کے باسی بھی اسموگ سے محفوظ رہنے کی خاطر دوسرے شہروں کا سفر اختیار کرتے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں میں لاہور کی فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ لیکن ابھی تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ یہ ماحولیاتی آلودگی کئی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ کھانسی اور گلا خراب رہنا اب معمول کی بات ہے۔ ماحولیات کے شعبے میں کام کرنے والی ڈبلیو بی ایم فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بنائے گئے اداروں کی بے پروائی کا یہ عالم ہے کہ جنوبی پنجاب میں تقریبا دو ہزار اینٹوں کے بھٹے چل رہے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی کا سدباب کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ لاہور جنوبی ایشیائی ممالک  میں سموگ کی وجہ سے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آ چکا ہے۔ 

ہم جانتے ہیں کہ دنیا کے دوسرے مما لک میں بھی اسموگ اور فضائی آلودگی کے مسائل موجود ہیں لیکن جس تیزی سے اس بلا نے شہر لاہور کو گھیرا ہے، اُس سے لاہور کے باسیوں کے دل اداس ہیں۔ دیکھتے ہیں سیاست میں الجھے ہمارے حکمرانوں کو کب اس شہر کی خوبصورتی بچانے کا خیال آئے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ لاہور کا چاند اب شاعروں اور رومان پروروں کا چاند نہیں رہا۔ حبیب جالب شاید کئی برس پہلے ہی بھانپ گئے تھے کہ اسموگ جیسی بلا لاہور کے چاند کو کھا جائے گی۔ وہ پہلے ہی کہہ گئے تھے،

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر