لبنان بارہویں بار بھی صدر منتخب کرنے میں ناکام
15 جون 2023لبنان میں 14جون بدھ کے روز قانون ساز بارہویں بار بھی صدر منتخب کرنے میں ناکام رہے، جس سے ملک میں جاری سیاسی خلا پر کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس سے قبل 19 جنوری کو بھی گیارہویں بار صدر کے انتخاب کی کوشش ناکام رہی تھی۔
لبنان میں افراط زر، زیتون کا تیل پہنچ سے باہر
ملک میں عہدہ صدارت گزشتہ اکتوبر کے بعد سے خالی ہے جب سابق صدر مائیکل عون کی مدت ختم ہو گئی تھی۔ لیکن ان کے جانشین کے انتخاب کی تازہ ترین کوشش بھی پہلے ہی کی طرح تعطل کا شکار ہو گئی۔
لبنان اور اسرائیل کے مابین تاریخی گیس پائپ لائن معاہدہ
پارلیمان میں کیا ہوا؟
عیسائی جماعت کے حمایت یافتہ آئی ایم ایف کے اہلکار جہاد آزور کو 59 ووٹ ہی مل سکے جبکہ ایرانی حمایت یافتہ سیاسی گروپ حزب اللہ کے پسندیدہ امیدوار سلیمان فرنگیہ کو 51 ارکان نے ووٹ دیا۔ لبنان میں صدر کے انتخاب کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے اور اس میں دونوں ہی امیدوار ناکام رہے۔
لبنان: اپنی ہی رقم نکالنے کے لیے'بینک ڈکیتیوں' کا سلسلہ تیز
اس کے بعد حزب اللہ کے ارکان اور ان کے اتحادی قانون سازوں نے انتخابات سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا اور اس طرح ضروری کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کا عمل ہی نہیں ہو سکا۔
مبینہ ایران نواز ہیکروں کا اسرائیل پر سائبر حملہ
ایرانی حمایت یافتہ مسلح شیعہ گروپ حزب اللہ ماضی میں بھی اسی طرح کے سیاسی حربے اپناتا رہا ہے۔ سن 2016 میں آخری بار صدارتی ووٹنگ میں مائیکل عون کی کامیابی سے پہلے بھی لبنان دو برس سے زیادہ عرصے تک صدر کے بغیر رہا تھا۔
حریری کی دستبرداری: لبنان میں فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ ملے گا؟
پارلیمان کے اسپیکرنے اجلاس کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ''صرف اتفاق رائے اور بات چیت'' کے ذریعے ہی صدر کے انتخاب میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔
انہوں نے صدر کے انتخاب کے لیے کسی نئے اجلاس کے شیڈول کا اعلان کیے بغیر بس اتنا کہا کہ سیاسی ''خلا کو طول دینے کے لیے الزام تراشیوں کا عمل اب بہت ہو چکا ہے۔''
اہم صدارتی امیدوار کون ہیں؟
لبنان کے سابق وزیر خزانہ جہاد آزور کو عیسائیوں، آزاد ارکان اور کچھ سنی مسلم قانون سازوں کی حمایت حاصل ہے، جو انہیں صدر منتخب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فی الوقت جہاد آزور مشرقی وسطی میں عالمی مالیاتی ادارے (ائی ایم ایف) کے ڈائریکٹر ہیں۔
پیر کے روز جب انہوں نے اس عہدے کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان کیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ وہ بحران پیدا کرنے کے بجائے مسئلے کے ''حل میں حصہ ڈالنا'' چاہتے ہیں۔
تاہم شیعہ تحریک حزب اللہ نے آزور کو ''منحرف اور تصادم پرست امیدوار'' قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا۔ تنظیم نے شام کے صدر بشار الاسد کے دوست سلیمان فرنگیہ کی حمایت کرنے کا اعلان کیا ہے جو حزب اللہ کے ہتھیار رکھنے کے حق کی بھرپور حمایت بھی کرتے ہیں۔
فرنگیہ نے اتوار کے روز اس بات پر اصرار کیا کہ گرچہ انہیں مذہبی خطوط پر منقسم اتحاد کی حمایت حاصل ہے، تاہم وہ ''تمام لبنانیوں کے صدر'' ہوں گے۔
آگے کیا ہونے کا امکان ہے؟
لبنان کا سیاسی نظام فرقوں پر مبنی ہے، جس کے تحت عہدہ صدارت عیسائی طبقے کے لیے مخصوص ہے اور وزارت عظمیٰ کا عہدہ ایک سنی مسلمان کے پاس ہوتا ہے۔ اس سسٹم کے تحت پارلیمنٹ کے اسپیکر کا عہدہ شیعہ کے پاس رہتا ہے۔
صدر کے نہ ہونے سے لبنان میں اقتدار کا خلا بڑھتا جا رہا ہے اور فی الوقت ملک ایک نگراں کابینہ کے زیر انتظام ہے جس کے پاس محدود اختیارات ہیں۔ حکومت کو اربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کو کھولنے کے لیے درکار بہت سی اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت ہے، جو یہ
کابینہ نہیں کر سکتی۔ تاہم ملک کو ایسی معاشی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اسے سن 1975 اور 90 کی خانہ جنگی کے بعد سے اپنے سب سے تباہ کن معاشی بحران کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ لبنان کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے، جب کہ ہڑتالوں کے سبب عوامی خدمات مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔ بجلی دن میں صرف چند گھنٹوں کے لیے دستیاب ہوتی ہے اور لبنانی کرنسی لیرا اپنی قدر کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ کھو چکی ہے، جو فی الحال ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 15,000 سے زیادہ پر ٹریڈ کر رہا ہے۔
بدھ کے روز ہونے والی ووٹنگ سے پہلے امریکہ اور فرانس نے لبنانی قانون سازوں سے تعاون کرنے کی اپیل کی تھی۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کی ترجمان این کلیئر لیجینڈر نے زور دیا تھا کہ وہ ''اس تاریخ کو سنجیدگی سے لیں '' اور ''ایک اور موقع ضائع نہ ہونے دیں۔''
تاہم تجزیہ کار کریم بطار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا: ''اس مرحلے پر، سب سے زیادہ امکان ایک طویل سیاسی خلا کا ہے۔''
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)