لبنان سے شام کے لیے اسلحے کی اسمگلنگ میں نمایاں اضافہ
16 اکتوبر 2011ماہرین کے خیال میں اسمگلنگ کے اس فروغ پاتے کاروبار کے پس پردہ عوامل میں سیاسی پارٹیوں کی حمایت کی جگہ فوری نفع سب سے اہم ہے۔
دمشق میں انٹرنیشنل کرائسسز گروپ سے وابستہ پیٹر ہیرلنگ (Peter Harling) کا کہنا ہے کہ شام اور لبنان کی سرحد پر اسمگلروں کے نیٹ ورک کافی عرصے سے فعال تھے اور اب ان کی توجہ ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی مانگ کی جانب ہوگئی ہے۔ '' ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے یکایک مانگ بڑھ گئی ہے، لبنان، عراق، یمن اور لیبیا کے مقابلے میں یہاں پہلے اسلحہ بہت کم تعداد میں گردش میں رہتا تھا۔''
پیٹر ہیرلنگ کے بقول فی الحال اسمگلروں کا اولین مقصد ہتھیاروں کی فروخت سے منافع کمانا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''شام میں دونوں اطراف کے لوگ اپنے دفاع کے لیے اسلحہ خرید رہے ہیں، حکومت کے حامی علوی کمیونٹی سنیوں کی کسی جوابی کارروائی کے تناظر میں اپنے علاقوں میں اسلحہ جمع کر رہی ہے اور حکومت مخالفین بھی ایسا ہی کر رہے ہیں، جن کی بڑی تعداد سُنی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں لوگ ذاتی دفاع پر توجہ مرکوز کیے ہوے ہیں۔''
شام کے دارالحکومت بیروت میں مقیم ایک مغربی سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسلے کی اسمگلنگ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس دھندے میں انفرادی حیثیت میں لوگ ملوث ہیں، گروہی یا جماعتی بنیادوں پر نہیں۔ سفارتکار کے مطابق جو لوگ ہتھیار پہنچا رہے ہیں ان میں سے کچھ کسی جماعت یا گروہ کے ساتھ ہمدردی رکھ سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کام کوئی ایک جماعت یا گروہ منظم انداز میں کر رہا ہے۔ اس سفارتکار کے بقول لمبے عرصے تک صورتحال یکسر مختلف تھی یعنی شام سے لبنان اور عراق کے لیے اسلحہ اسمگل کیا جاتا تھا۔
شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مارچ کے وسط سے شروع ہونے والی عوامی تحریک کی پشت پناہی کا الزام لبنان کے سُنی سیاست دان سعد الحریری کے وفا داروں پر عائد کیا جاتا ہے۔ حریری دمشق حکومت کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ لبنان میں حکام نے کئی لبنانیوں اور شامی افراد کو اسلحے کی اسمگلنگ کے شبے میں گرفتار بھی کیا ہے۔
اے ایف پی نے لبنان میں لائسنس یافتہ اسلحے کی تجارت کرنے والے ایک شخص کی رائے جانی تو اس نے بتایا، '' شامی شہری ہر قسم کی اسلحے کی کھوج میں ہیں اسی بناء پر قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔'' اس تاجر کے بقول بلیک مارکیٹ میں گردش کرنے والا بیشتر اسلحہ لبنان میں 1975ء تا 1990ء کی خانہ جنگی اور 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے بعد کا ہے۔
ایک اسمگلر نے اے ایف پی کو بتایا کہ شام میں حکومت مخالف تحریک کے بعد اب استعمال شدہ کلاشنیکوف کی قیمت 800 ڈالر سے بڑھ کر 1500 ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس شخص کے بقول دونوں ممالک کے درمیان 330 کلومیٹر طویل سرحد پر کئی ایسے دشوار گزار علاقے موجود ہیں جہاں سے پیدل یا بذیعہ کار شام تک اسلحہ پہنچایا جاتا ہے۔
مغربی سفارتکار کے بقول لبنان میں شام نواز حزب اللہ نے مشرقی البقاع وادی کے سرحدی علاقوں میں اپنی گشت کو بڑھا دیا ہے۔ دوسری جانب شامی سکیورٹی فورسز نے بھی سرحدوں پر چیک پوائنٹس میں اضافہ کیا ہے تاکہ اسلحے کی اسمگلنگ روکی جاسکے۔ ان کے بقول اگر ترکی نے شام کے لیے اسلحہ لے جانے میں نرمی کردی تو شام کی صورتحال مزید تبدیل ہوسکتی ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عابد حسین