لبنان میں اب مرغیوں کی محافظ لومڑی: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
8 مئی 2018لبنان کی پارلیمان کے لیے ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں حزب اللہ تشویش ناک حد تک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھری ہے اور خدشہ ہے کہ یہ تحریک نہ صرف مشرق وسطیٰ میں پہلے سے پائی جانے والی کشیدگی میں شدت کا باعث بنے گی بلکہ اپنی سیاسی پالیسیوں کے ساتھ لبنانی سیاست کو اپنا یرغمالی بھی بنا لے گی۔
لبنان انتخابات: حزب اللہ کا سیاسی اتحاد مزید طاقتور
لبنان کے الیکشن میں اہم طاقتیں کون سی ہیں؟
زندگی کبھی کبھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ شامی خانہ جنگی، جس میں لبنانی سیاسی اور نیم فوجی تحریک کے طور پر حزب اللہ کا بھی ہاتھ ہے، لبنان کو بھی متاثر کرتی ہے۔ لیکن لبنان کے جن رائے دہندگان نے اس تحریک کو ووٹ دیے ہیں، ان کا خیال ہے کہ شاید یہی حزب اللہ شامی جنگ میں اپنے اس کردار کے نتائج کا سامنا بھی کر سکے گی۔
غیر حتمی سرکاری نتائج کے مطابق حزب اللہ اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتوں کو بیروت میں آئندہ وجود میں آنے والی نئی ملکی پارلیمان میں نصف سے زائد نشستیں حاصل ہو گئی ہیں۔ حزب اللہ کے نام کا مطلب ہے ’اللہ کی پارٹی‘ اور اب اس جماعت سے توقع کی جائے گی کہ وہ اسی عدم استحکام اور انتشار کو ختم کرے، جس کی وجوہات میں سے ایک وہ خود بھی ہے۔
شام محفوظ نہیں، مہاجرین واپس نہیں جا سکتے
شامی جنگ کے ليے ایران، افغان ٹین ایجرز کی بھرتی میں ملوث
ساتھ ہی حزب اللہ کو ان مسائل کے حل بھی تلاش کرنا ہوں گے، جن کا آج کے لبنان کو سامنا ہے۔ ان مسائل میں ان قریب ڈیڑھ ملین شامی مہاجرین کی موجودگی بھی شامل ہے، جو خانہ جنگی کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ کر لبنان میں پناہ لے چکے ہیں۔
لبنان کی اپنی مجموعی آبادی چھ ملین کے قریب ہے اور اسے رہائشی سہولیات، خوراک اور روزگار کی منڈی سمیت کئی حوالوں سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں لبنان بھلا ڈیڑھ ملین شامی مہاجرین کی جملہ ضروریات کیسے پوری کر سکتا ہے۔ ان حالات میں ہزارہا شامی مہاجرین گزشتہ مہینوں کے دوران لبنان سے دوبارہ رخصت بھی ہو چکے ہیں اور اقوام متحدہ کا مہاجرین کا ادارہ اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر چکا ہے کہ یہ شامی مہاجرین اپنی مرضی سے لبنان سے واپس گئے تھے۔
لبنانی ووٹروں کی اکثریت نے حزب اللہ اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ووٹ دے کر اس امید کا اظہار تو کیا ہے کہ شاید یہ تحریک ملک کو درپیش وسیع تر کرپشن کے اس عفریت سے بھی نجات دلا سکے، جو اس ملک کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ لیکن ساتھ ہی لبنانی عوام کا یہ فیصلہ ایسے ہی ہے جیسے مرغیوں کے ڈربے کی حفاظت کا کام لومڑی کو سونپ دیا جائے۔
اگر امریکا جوہری معاہدے سے نکلا تو مشرق وسطیٰ کا امکانی منظر
میں فی الحال وزیر اعظم کی ذمہ داریاں نبھاتا رہوں گا، الحریری
اس لیے کہ جہادیوں اور حکومت مخالف باغیوں کے علاوہ شامی خانہ جنگی کی ایک بڑی فریق دمشق میں اسد حکومت بھی ہے، جس سے بچ کر یہ مہاجرین شام سے فرار ہوئے تھے اور لبنان کی اسی حزب اللہ ملیشیا کے جنگجو تو شام میں اسد حکومت کے دستوں کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔
حزب اللہ کی سوچ اور سیاست کا ایک بہت اہم پہلو اس کا ایران نواز ہونا بھی ہے۔ ایران اس تحریک کو سالانہ قریب 800 ملین ڈالر یا 671 ملین یورو کے برابر مالی وسائل مہیا کرتا ہے۔ ان مالی وسائل کی فراہمی بلا مقصد تو نہیں ہوتی۔ اسی لیے شیعہ مسلم سیاسی تحریک اور ملیشیا حزب اللہ کی لبنان اور مشرق وسطیٰ، خاص کر شامی خانہ جنگی اور اسرائیل کے بارے میں سوچ وہی ہے جو تہران میں ایرانی حکومت اور مذہبی قیادت کی ہے۔
حریری لوٹ کیوں نہیں رہے، سعودی عرب وضاحت کرے، لبنانی صدر
ایرانی فوجی سربراہ شامی شہر حلب کے پاس جنگی محاذ پر پہنچ گئے
کئی اسرائیلی سیاستدان پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اب ان کے لیے لبنان اور حزب اللہ دونوں ایک ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لبنانی باشندوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے خود کو اپنے ہی ملک کی اس سب سے بڑی ملیشیا کا یرغمالی بنا لیا ہے، جس کی انتخابی فتح خطے کے لیے بہرحال ایک بری خبر ہے۔
کَیرسٹن کنِپ / م م / ع ا