لبنان میں اسرائیلی بمباری، شامی فوج کا کاروبار
9 اکتوبر 2024لبنان میں اسرائیلی عسکری کارروائیاں جاری ہیں اور ایسے میں ہزار ہا افراد جن میں بڑی تعداد لبنان میں مقیم شامی مہاجرین کی ہے، وطن واپس جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس دوران شامی سکیورٹی فورسز ان افراد سے بھاری داخلہ فیس لے رہی ہیں جب کہ ملک میں داخلے کے بعد سڑک پر طویل سفر کر کے شامی باغیوں کے زیرقبضہ علاقوں تک پہنچنے والوں کے لیے یہ سفر انتہائی مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
شامی شہری خالد مسعود کے مطابق انہوں نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ لبنان سے شمالی شام پہنچنے کے لیے سات روزہ سفر کے دوران تیرہ سو ڈالر ادا کیے۔ اب یہ خاندان شمالی شامی علاقے ادلب کے نواح میں معرت مصرین میں ایک مہاجر بستی میں ہے۔ اس علاقے پر حکومت مخالف فورسز کا قبضہ ہے۔
مسعود ایسے بہت سے شامی باشندوں میں سے ایک ہیں، جو لبنان سے شام پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ فیلیپو گرانڈی کے مطابق رواں ہفتے دو لاکھ بیس ہزار افراد لبنان سے شام پہنچے ہیں، جن میں اسی فیصد شامی باشندے ہیں، جو شام میں سن 2011 سے جاری خانہ جنگی کے دوران ہجرت کر کے لبنان گئے تھے۔ لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ لبنان پر اسرائیلی حملوں کے بعد سے اب تک چار لاکھ افراد شام جا چکے ہیں۔
شامی باشندوں کے لیےلبنان سے سرحد عبور کر کے شام پہنچنا کوئی آسان معاملہ نہیں ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک چھوڑنے والے ہر شخص کو واپسی پر آمر صدر بشارالاسد اور ان کی حکومت ایک غدار کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے ایک مسلسل شک کا سامنا رہتا ہے۔ شامی شہریوں کو واپسی پر شک کی بنیاد پر حراست میں لیا جا سکتا ہے، انہیں تشدد کا سامنا ہو سکتا ہے اور جبراﹰ شامی فوج میں بھرتی کیا جا سکتا ہے۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کے مطابق شامی باشندوں کو اس دوران ہلاک تک کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے شام واپس پہنچنے والوں کے لیے حکومت مخالف گروہوں کے زیرقبضہ علاقوں میں سکونتہی قدرے محفوظ راستہ ہے۔ شامی باشندوں کے مطابق مختلف سڑکوں پر موجود فوجی چوکیوں پر تعینات اہلکار گزرنے والوں سے پیسے طلب کرتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ شام اس وقت عمل داری کے اعتبار سے تین حصوں میں منقسم ہے، جہاں ایک طرف حکومتی فورسز کے زیرقبضہ علاقے ہیں، جب کہ کچھ علاقوں پر کرد جنگجو اور کچھ پر ترک حمایت یافتہ فورسز قابض ہیں۔
ع ت/ ک م، م م (کیتھرین شائر، عمر البم)