1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لبنان میں شامی لڑکیوں سے جسم فروشی کیسے کروائی جاتی ہے؟

امتیاز احمد13 اپریل 2016

جنگ سے تباہ حال شام کی ان نوجوان لڑکیوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں لبنان کے اچھے ہوٹلوں میں اچھی تنخواہوں پر ملازمت فراہم کی جا رہی ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لڑکیاں شامل ہیں، جن کے والد یا بھائی جنگ میں مارے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1IUQf
Libanon Menschenhändler Syrische Zwangsprostituierte
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Malla

جونہی یہ لڑکیاں لبنان پہنچی تو ان کی سفری دستاویزات اور موبائل چھین لیے گئے۔ ان لڑکیوں کو بیروت کے شمال میں واقع دو ہوٹلوں میں بند کر دیا گیا اور انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد ان میں سے جس لڑکی نے بھی ایسا کرنے سے انکار کیا، اسے مارا پیٹا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی برہنہ تصاویر بھی بنائی گئیں۔

یہ سلسلہ مارچ کے اوآخر میں اس وقت تک جاری رہا، جب تک لبنانی فورسز نے چھاپہ مار کارروائیاں کرتے ہوئے ان دونوں ہوٹلوں میں قید درجنوں شامی لڑکیوں کو آزاد کروایا۔ بتایا گیا ہے کہ اس کاروبار میں ایک پورا گروپ شامل تھا، جو انتہائی منظم انداز میں یہ کام جاری رکھے ہوئے تھا۔

خواتین کو اسمگل کرنے والے اس گروہ کے پکڑے جانے پر لبنانی عوام بھی حیران تھے کہ ایک عرصے سے ایسا کیسے ہوتا رہا ہے؟

Libanon Kafa Fraeunrechtlerin Maya al-Ammar
مایا العمر متاثرہ خواتین سے مل بھی چکی ہیں اور بعض خواتین نے ان کو بتایا کہ انہیں ایک ہی دن میں بیس بیس گاہکوں سے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا جاتا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Malla

لبنان میں پہلے ہی ایک ملین سے زائد شامی مہاجرین موجود ہیں جبکہ اس کیس کی تیز تر تفتیش کے لیے بھی عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان چھاپوں کے دوران 75 متاثرہ خواتین کو آزاد کروایا گیا ہے اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ لبنان کو اب تک کا سب سے بڑا سیکس اسکینڈل ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کی اطلاعات کے مطابق جس وقت ان خواتین کو بازیاب کروایا گیا تو ان کی حالت انتہائی مخدوش تھی اور چیس مورس نامی ہوٹل ایک ریسٹ ہاؤس سے زیادہ ایک جیل لگتی ہے۔

لبنان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن مایا العمر کا کہنا ہے، ’’ان لڑکیوں کو چند ماہ کے دوران وقفے وقفے سے شام سے لبنان منتقل کیا گیا۔ جنہوں نے جسم فروشی سے انکار کیا، انہیں بار بار ریپ کیا گیا اور اس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جب تک کہ وہ راضی نہ ہو گئیں۔‘‘

مایا العمر متاثرہ خواتین سے مل بھی چکی ہیں اور بعض خواتین نے ان کو بتایا کہ انہیں ایک ہی دن میں بیس بیس گاہکوں سے جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ لبنانی پولیس نے اس واقعے کے بعد خواتین کے ایک کلینک کو بھی سیِل کر دیا ہے۔ خواتین کے امراض کے ماہر ڈاکڑ ریاد العالم کے اس کلینک پر شام سے اسمگل کی گئی اُن خواتین کا اسقاط حمل کیا جاتا تھا، جو جنسی تعلق قائم کرنے کے دوران حاملہ ہو جاتی تھیں۔

Libanon Chez Maurice Hotel
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Malla

لبنان کے وزیر صحت وائل ابو فاعور کہتے ہیں، ’’اس ڈاکٹر کو جیل میں ہونا چاہیے اور اسے وہاں ہی سڑنا چاہیے۔‘‘ لبنان کی میڈیکل ورکرز یونین اس ڈاکٹر کا لائسنس بھی منسوخ کر چکی ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن مایا العمر کا کہنا ہے کہ اس کلینک پر تقریباﹰ دو سو مرتبہ اسقاط حمل کیا گیا۔

گزشتہ برس امریکی محکمہ خارجہ نے بھی ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق، ’’لبنان میں شامی بچوں اور خواتین کو سیکس اسمگلروں سے خطرہ ہے جبکہ شامی لڑکیاں لبنان میں جسم فروشی کے لیے لائی جا رہی ہیں اور بعض اوقات شادی کا جھانسہ دے کر بھی ایسا کیا جا رہا ہے۔‘‘

لبنان کی خاتون تحقیقی صحافی سینڈی عیسیٰ کے متاثرہ لڑکیوں میں سے چند ایک کا انٹرویو کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اسمگلر متاثرہ لڑکیوں کے خاندانوں کی مخدوش صورتحال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ان لڑکیوں کی کہانیاں کسی خوفناک فلم سے کم نہیں ہیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ کئی ایک لڑکیوں کے والد جنگ میں ہلاک ہو چکے ہیں اور اسمگلروں کی طرف سے انہیں اچھی ملازمت کا جھانسہ دیا گیا تھا۔

لبنانی حکام کے مطابق ان متاثرہ لڑکیوں کو صرف اسی وقت ہوٹلوں سے باہر لے جایا جاتا تھا، جب انہیں کسی ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی تھی اور یہ گینگ ماہانہ کم از کم ایک ملین ڈالر کما رہا تھا۔ یہ بھی شک کیا جا رہا ہے کہ اس گینگ کو پولیس کے کسی بااثر اہلکار کی حمایت حاصل تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس کیس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔