1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لداخ: چینی فوجیوں کی بھارتی گاؤں میں مبینہ دراندازی

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
21 دسمبر 2020

بھارت اور چین کے درمیان لداخ میں لائن آف ایکچوؤل کنٹرول کے پاس ایک گاؤں میں چینی فوجیوں کی جانب سے دراندازی کی اطلاعات ہیں۔ اس سے متعلق ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے تاہم بھارت نے ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3n0JS
Archivbild | Indien Ladakh | Chinesische Truppen an Grenze mit Banner
تصویر: picture-alliance/AP Photo

ایک ایسے وقت میں جب چین اور بھارت لداخ میں کشیدگی کم کرنے کے مقصد سے ایک اور مرحلے کی بات چيت کی تیاری کر رہے ہیں، ایل اے سی پر بھارت کے ایک گاؤں میں چینی فوجیوں کے داخل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بھارتی ميڈیا کے مطابق چینی فوجی سادہ وردی میں گاڑیوں میں سوار ہوکر آئے تھے اور گاؤں کے لوگوں سے بات چیت کے بعد وہاں رکنے کیبجائے اپنی جانب واپس چلے گئے۔    

لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر بھارت کی جانب سے جس گاؤں میں چینی فوجیوں کے داخلے کی بات کی جا رہی ہے وہ مشرقی لداخ میں لیہ سے تقریباً 135 کلو میٹر کے فاصلے پر نیوما علاقے میں واقع ہے اور اس کا نام چانگ تھانگ بتایا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا میں یہ خبر  مذکورہ گاؤں سے وائرل ہونے  والی ایک ویڈیو کے حوالے سے شائع کی گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ فوجی گاڑیوں میں سوار ہوکر آئے تھے۔       

سوشل میڈیا پر فوجیوں کے داخلے سے متعلق ایک نئی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ایک بڑے میدانی علاقے، غالباً چراگاہ، میں بعض چینی شہریوں کو سادہ وردی میں کاروں سے اترتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں موجود افراد اور چینی فوجیوں کے درمیان  مقامی زبان میں کافی دیر تک بات چیت کو بھی سنا جا سکتا ہے۔ بعد میں یہ افراد اپنی گاڑیوں میں سوار ہوکر واپس چلے گئے۔

اطلاعات کے مطابق وہاں پر بڑی تعداد میں مقامی چرواہے موجود تھے جنہوں نے فوجیوں کی آمد پر احتجاج کیا جس کے بعد چینی شہری وہاں سے واپس ہوئے۔ خبروں کے مطابق مقامی لوگوں نے اس واقعے سے متعلق سرحد کی حفاظت کرنے والے بھارتی فورسز کو بھی اطلاع دی تھی۔ 

 اس سرحدی علاقے میں دونوں جانب سے بھاری تعداد میں فوجی تعینات ہیں اس کے باوجود اس طرح کی دراندازی سے ایسا لگتا ہے کہ بہت سے علاقے اب بھی یونہی بغیر فوج کے خالی پڑے ہیں۔ بھارت کے ایک معروف انگریزی اخبار کے مطابق اس سلسلے میں مقامی فوجی افسران سے رابطہ کر کے مزید تفصیلات جاننے کی کوشش کی گئی تاہم حکام نے اس پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارتی حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

مقناطیسی پہاڑ، جن کے اوپر سے پائلٹ بھی پرواز سے بچتے ہیں

تبت سے تعلق رکھنے والے بیشتر پناہ گزین لداخ میں آباد ہیں جس میں سے ایک بڑی تعداد چانگ تھانگ اور لیہ میں رہتی ہے۔ چانک تھانگ میں مقامی بکروال اور قبائلی بھی آباد ہیں۔  

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں گزشتہ تقریبا آٹھ ماہ سے حالات کشیدہ ہیں اور دونوں ملکوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اب تک فریقین میں کئی دور کی بات چیت ہوچکی ہے تاہم ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ 15جون کی درمیانی شب وادی گلوان میں دونوں فوجوں کے درمیان زبردست تصادم ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ اس کے فوجیوں نے بھی گلوان میں زبردست بہادری کا مظاہرہ  کیا اور چینی فوجیوں کو بھی بھاری نقصان سے دو چار کیا۔ تاہم چین نے اب تک ایسے کسی نقصان کا زکر نہیں کیا ہے۔ 

بھارت کا موقف ہے کہ ایل اے سی پر رواں برس اپریل تک جو پوزیشن تھی اگر اس کو بحال کیا جائے تو کشیدگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کا مطالبہ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوجوں کو بلا شرط پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہیے۔ لیکن اس حوالے سے فریقین میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔

 لداخ کے بلند ترین اور بنجر پہاڑوں کے درمیان واقع لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کا علاقہ عموماً کافی سرد رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 40 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، جس سے وہاں فوجیوں کی تعیناتی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کڑاکے کی سردی سے پہلے ہی وہاں سے فوجیوں کو ہٹا لیا جائے۔

لداخ میں بھارتی فوج کی بھاری تعیناتی، لوگوں میں پریشانی

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں