لفتھانزا کمرشل کارگو ڈرونز کے استعمال کی تیاریوں میں
18 جولائی 2015فرینکفرٹ سے ہفتہ اٹھارہ جولائی کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمن فضائی کمپنی لفتھانزا نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی ایوی ایشن کمپنی ہے بلکہ اس ادارے کے پاس عالمی سطح پر فضائی سفر اور مال برداری کا عشروں پر محیط وسیع تر تجربہ بھی ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق نئے دور کے نئے تقاضوں کے مدنظر یہ جرمن ایئر لائن اب ہوا بازی کی صنعت میں اپنی مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تیاریوں میں ہے کہ اس تجربے کو مال برداری کرنے والے نجی ڈرونز کی منڈی میں بھی استعمال کیا جا سکے۔
اس مقصد کے لیے کارگو ڈرونز کو اڑانے والے پائلٹوں کو تربیت دینے کے علاوہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کام کرنے والے ان ڈرونز کی تکنیکی دیکھ بھال کی مشق بھی کی جا رہی ہے۔ یہ تیاریاں اس حقیقت کے پیش نظر اور بھی اہم ہیں کہ ابھی تک نہ تو ایسا ہوا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی منصوبے بنائے گئے ہیں کہ بڑے ہوائی جہازوں کی ایسی مسافر یا مال بردار پروازیں شروع کی جائیں، جن میں کوئی پائلٹ نہ ہو۔
لفتھانزا کے چیف ایگزیکٹو کارسٹن شپوہر کو توقع ہے کہ ہوائی ذرائع سے تجارتی مال برداری کے لیے پرائیویٹ ڈرونز کے استعمال میں آئندہ بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔ تب مستقبل میں بڑی فضائی کمپنیوں کے وہ مسائل بھی کسی حد تک کم ہو جائیں گے، جو کارگو پروازوں کے پائلٹوں کی ہڑتالوں کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔
یورپ میں اب تک مروجہ قوانین کے مطابق کسی بھی سائز کے ایسے طیاروں یا ڈرونز کے تجارتی استعمال پر سخت پابندیاں عائد ہیں، جو بغیر پائلٹ کے پرواز کرتے ہوں۔ جرمنی میں کسی ڈرون طیارے کا زیادہ سے زیادہ وزن 25 کلوگرام ہو سکتا ہے اور اسے ہر حال میں 100 میٹر سے کم بلندی پر پرواز کرنا ہوتی ہے۔
جرمنی سمیت کئی یورپی ملکوں میں ہوائی اڈوں کی فضاؤں میں ایسے ڈرون طیاروں کو اڑانے کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ ایک قانون یہ بھی ہے کہ کوئی بھی ڈرون طیارہ ہر وقت اسے اڑانے والے پائلٹ کی نظروں میں رہنا چاہیے۔ یہ وہ قانونی پابندی ہے جس کے باعث کارگو کمپنیوں کی طرف سے پیکٹوں وغیرہ کی غیر مقامی ترسیل کے لیے ڈرون طیاروں کا استعمال عملاﹰ تقریباﹰ ناممکن ہو جاتا ہے۔
جرمن کارگو کمپنی DHL اور انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرنے والی تجارتی کمپنی ’ایمیزون‘ دونوں ہی اس مقصد کے لیے قانونی اجازت نامے حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں کہ وہ اپنے صارفین تک ان کے پارسل ڈرونز کے ذریعے پہنچا سکیں۔
کئی ملکوں میں پانچ کلوگرام سے کم وزن والے ڈرونز جغرافیائی سروے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ چند امریکی علاقوں میں تجرباتی بنیادوں پر ڈرونز کا استعمال زرعی شعبے میں بھی کیا جا رہا ہے۔
لفتھانزا کے سربراہ شپوہر کے مطابق دنیا کے اس سب سے بڑے ایوی ایشن ادارے کو امید ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے تیار کردہ ڈرونز کو کمرشل کارگو کی ترسیل کے لیے استعمال میں لا سکے گا۔ اس عمل میں لفتھانزا کا ڈی ایچ ایل سے تکنیکی تعاون بھی ممکن ہے۔
لفتھانزا نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی ایوی ایشن کمپنی ہے بلکہ دنیا بھر کے تمام ہوائی جہازوں میں سے 10 فیصد کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام بھی یہی ادارہ کرتا ہے۔ اس کمپنی کی کمرشل پروازوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی سالانہ تعداد کئی ملین بنتی ہے اور اس ادارے کو سالانہ 30 بلین یورو سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے۔