’لڑکيوں کی کم عمری ميں شادی اور غلامی کا تعلق‘
1 مئی 2018
مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے محققين ان دنوں ايک ايسے اولين مطالعے پر کام کر رہے ہيں جس کا مقصد کم عمری ميں شادی اور غلامی کے مابين تعلق کا تعين ہے۔ مہاراشٹرا ميں عورتوں کے کميشن کی سربراہ وجايا راہتکار نے اس امر کی تصديق کی ہے۔
بھارت ميں لڑکيوں کے ليے شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ برس اور مردوں کے ليے اکيس برس مقرر ہے۔ قانون کی خلاف ورزی يا مقررہ عمر تک پہنچنے سے قبل اپنے بچوں کی شادی کرانے والے والدين کو دس ہزار روپے اور دو برس قيد کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم بھارت کے ديہی اور غريب علاقوں ميں لڑکيوں کے ساتھ امتيازی سلوک عام ہے۔ ان علاقوں ميں لڑکيوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے انہيں اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی بياہ ديا جاتا ہے۔
وجايا راہتکار نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن سے بات چيت کرتے ہوئے کہا کہ کم عمری ميں کرائی جانے والی اکثريتی شادياں زيادہ عرصے تک نہيں چل پاتيں۔ ان کے بقول اب ايسے کئی کيسز سامنے آ چکے ہيں، جن ميں کم عمری ميں شادی اور ہیومن ٹريفکنگ کی کڑياں براہ راست ملتی ہيں۔ مہاراشٹرا ميں عورتوں کی کميشن کی سربراہ کے بقول انہوں نے اس سلسلے ميں مطالعہ کرانے کا فيصلہ ايسی رپورٹيں موصول ہونے کے بعد کيا، جن کے مطابق کم عمری ميں بياہ دی گئی لڑکيوں کو گھروں ميں غلام بنا کر قيد رکھا گيا يا پھر انہيں قحبہ خانوں ميں فروخت کر ديا گيا۔
يہ سروے اس وقت رياست کے مختلف اضلاع ميں جاری ہے اور اس ميں کم عمری ميں شاديوں کے واقعات کی تعداد اکھٹی کی جائے گی۔ بعد ازاں يہ معلومات ديگر رياستوں کو بھی فراہم کی جائے گی۔ ہيومن ٹريفکنگ کے انسداد کے ليے سرگرم گروپ ’جسٹس اينڈ کيئر‘ سے منسلک ايڈريئن فلپس کے مطابق لڑکيوں کی کم عمری ميں شادی اور غلامی کے درميان تعلق کے بارے ميں معلومات کا مکمل فقدان ہے۔ فلپس کا ادارہ اس مطالعے ميں مدد فراہم کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سروے ان دونوں جرائم کے گہرے تعلق کے بارے ميں شواہد و معلومات عام کرے گا۔
بچوں کے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے يونيسف نے رواں سال مارچ ميں ہی يہ کہا تھا کہ بھارت ميں کم عمری ميں شادی کرا دينے کے واقعات ميں نماياں کمی ديکھنے ميں آئی ہے۔ تاہم اب بھی ستائيس فيصد شاديوں ميں لڑکيوں کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہوتی ہے۔
ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں