1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لڑکی ملزم کو پہچاننے سے انکار نہ کرے تو کیا کرے؟

18 جنوری 2022

لڑکی اگر ایک نامحرم لڑکے کے ساتھ کسی ہوٹل یا پارک میں چلی جائے تو ہمارے معاشرتی خود ساختہ اخلاقی قوانین کسی بھی ’اخلاقی بریگیڈ‘ کو یہ موقع فراہم کر دیتے ہیں کہ اس لڑکی کو ساتھ موجود مرد سمیت ذلیل و خوار کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/45hQQ
DW Bloggerin l Aaliya Shah
تصویر: DW/A. Awan

بلیک میل کیا جائے اور اس کے بعد عثمان مرزا کیس جیسے سانحات جنم لیتے ہیں۔ یہ کیس ان دنوں ایک نیا موڑ اختیار کر چکا ہے۔ اس کیس میں متاثرہ لڑکی نے ملزم کو پہچاننے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پولیس نے خود سے ہی سارا معاملہ گھڑا ہے۔

 یہ خبر حیران کن اور مایوس کن اس لیے ہے کیونکہ یہ واقعہ ہونے کے کچھ عرصے کے بعد متاثرہ لڑکی اور لڑکے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں اور ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عثمان اور اس کے گروہ میں شامل دیگر مردوں نے قابو میں آئے لڑکی اور لڑکے کے ساتھ کیسا اخلاق باختہ اور  غیر انسانی سلوک کئی گھنٹوں تک روا رکھا تھا۔

اس کے بعد پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور لوگ یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ کچھ ایسا ہی غم و غصہ اب ایک بار پھر نظر آ رہا ہے، جب یہ پتہ چلا کہ مبینہ طور پر ملزمان کے خوف، ڈرانے دھمکانے یا پس پردہ کوئی سودا ہو جانےکے لالچ میں لڑکی نے ملزم کو پہچاننے سے انکار کر دیا ہے۔

 لہذا حکومت نے اس کیس کی پیروی خود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو لوگ اس کیس میں متاثرہ لڑکی کے، ملزم کو پہچاننے سے انکاری ہونے پر مشتعل ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس لڑکی کے حق میں انہوں نے آواز اٹھائی تھی تو اس نے ملزمان سے صلح کرنے، سودا کرنے یا پیچ اپ کرنے کا کیسے سوچ لیا؟

کسی نے کہا ہمیں ''ماموں بنا‘‘ دیا اور کسی نے کہا کہ ان دونوں کو دوبارہ عثمان مرزا کے ساتھ اسی کمرے میں بند کیا جائے۔ دراصل ان لوگوں کو اپنے ایکٹیوازم کے خاک میں مل جانے کا افسوس ہے، جو ان کے نزدیک انصاف کا بول بالا کرنے کے لیے کیا گیا۔

 یہی وجہ ہے کہ وہی لوگ اب کہتے ہیں کہ اس لڑکی کے ساتھ سزا کے طور پر دوبارہ وہی سلوک کیا جائے یا اس کو بھی جیل بھیجا جائے بلکہ ان کو شریعت کی رو سے کوڑے مارے جائیں اور فضول میں ان کے لیے آواز اٹھا کر وقت برباد کیا گیا ہے۔

 ہمارے معاشرے کے ایسے لوگوں کی شخصیت کی بنیاد ایک ایسی اساس پر کھڑی ہے، جو یہ نہیں جانتے کہ اصل انصاف یہ ہے کہ ان کو بلیک میل کر کے ان پر زندگی تنگ نہ کی جائے بلکہ معاشرے میں موجود بےجا سختیوں کو کم کرنے اور انسانیت کو قبولیت دینے کی کوشش کی جائے تا کہ عثمان مرزا جیسے افراد کو ایک جوڑے کو اس وجہ سے ہراساں کرنے کا موقع نہ ملے کہ وہ ایک جگہ اکٹھے تنہا پائے گئے۔ 

ایسا کرنا یا سوچنا تو دور کی بات ہم تو یہ محسوس کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ ہمارے ملک میں فرسودہ رسوم و رواج میں جکڑے لوگ نہ خود سکون کی سانس لیتے ہیں اور نہ دوسروں کو لینے دیتے ہیں۔ یہاں اگر کسی خاتون کے ساتھ بد اخلاقی، تشدد یا جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آجائے تو وہ خود مجرم بن جاتی ہے۔

خاندان سے شروع ہو کر محلے دفتر اور معاشرے تک ہر فرد اس کو شک کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور اگر خدانخواستہ اس پر ہوئے ظلم کی ویڈیو یا تصاویر وائرل ہو جائیں تو عورت کے پاس خودکُشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔

 آپ اسی لڑکی کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا اندازہ کریں، جس کے ساتھ ایسا ظالمانہ فعل ہوا ہو، پھر لاکھوں لوگوں تک اس کی تصاویر اور ویڈیو پہنچ جائے، ہر گھر کے ٹی وی لاونج میں اس پر مباحثہ ہو، سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تبصرے کیے جائیں، پھر ملزمان کی طرف سے دھمکیاں آئیں، پھر وزیراعظم کے نوٹس لینے پر یہ ایک ہائی پروفائل کیس بن جائے اور ملزمان پیسوں کے عوض معاملہ رفع دفع کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں یا خوفزدہ کر کے کیس سے مکر جانے کو کہیں۔

اس تمام صورتحال میں لڑکی ملزم کو پہچاننے سے انکار نہ کرے تو اور کیا کرے؟ ہمیں متاثرہ مرد و عورت کے حوصلے اور بہادری کی داد دینی چاہیے، جو یہ سب دیکھ کر اور سہہ کر اب تک زندہ ہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو ختم نہیں کیا ورنہ ہم تو ان کو منہ چھپانے کی جگہ فراہم کرنے کے قابل بھی نہیں۔ پھر کوئی چارہ نہیں رہتا سوائے اس کے کہ ان کے پاس کچھ پیسہ ہو اور وہ کسی دوسرے ملک کی راہ لیں، جہاں ان کو پہچاننے والا کوئی نہ ہو۔

پیچ اپ ہو، مبینہ طور پر ایک کروڑ کا سودا یاپھر ملزمان کو سزا ہو جائے، خسارہ ہر دو صورتوں میں متاثرہ لڑکی اور لڑکے کا ہی ہے کیونکہ یہ معاشرہ کبھی بھی انہیں چین سے جینے نہیں دے گا۔ یقین جانیے! اگر نور مقدم ماری نہ جاتی، اس کے ساتھ صرف جنسی زیادتی ہوتی تو معاشرے کی نظر میں وہ بدکردار عورت آج بھی ''مجرم‘‘ ہوتی۔ وہ تو ظاہر جعفر نے اس کا سر تن سے جدا کر کے خاتون کے کردار کو نشانہ بنانے والوں کو تسلی دے ڈالی۔ لہذا انہوں نے مری ہوئی عورت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر بھی بہت سے لوگ اب بھی یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ قصور اسی کا تھا، وہ لڑکے کے ساتھ اس کے گھر میں کیا کر رہی تھی؟

ایسی صورت حال میں عثمان مرزا جیسے کیس کا قانونی پہلو مزید گھمبیر صورت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ اگر فریقین کے بیچ سودا ہو جاتا ہے تو یہ مملکت کے قانون کی دھجیاں اڑانے کے برابر ہو گا۔ کسی بھی صورتحال میں قانون اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ مجرم کو پیسے کے عوض چھوڑ دیا جائے لیکن دیت، ہتک عزت اور تاوان وغیرہ کا وہ قانون، جو اس قسم کے کیسز پر لاگو کیا جاتا ہے، اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ فریقین خاص شرائط کے ساتھ صلح صفائی کر سکتے ہیں۔

 ہم نے ماضی میں ریمنڈ ڈیوس اور شارخ جتوئی کے کیسز اس طرح کی مثال بنتے دیکھے لیکن اس موقع پر سول سوسائٹی کی طرف سے مزاحمت نظر آتی ہے۔

اگر عثمان مرزا پیسے دے کر چھوٹ جاتا ہے تو یہ قانون اور معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہو گا، جو مجرمان کے لیے اس قسم کی رعایت کی گنجائش باقی رکھتے ہیں اور ان کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا بیک ڈور کھلا رہتا ہے، جہاں سے ان کو بھاگنے کا موقع مل جائے۔

حکومت یا ریاست خود  مدعی بن کر اس کیس کی پیروی کرے یا نہ کرے لیکن ایک سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ کیا حکومت و ریاست اس چیز کی گارنٹی دے سکتی ہے کہ آئندہ کسی لڑکے یا لڑکی کے ساتھ ایسا خوف ناک سلوک نہیں ہو گا؟

حکومت اور ریاست اس بات کی ضمانت صرف اسی وقت دے سکے گی، جب نئی نسل کو زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط انسانیت کے اصولوں پر پرکھنے کے طریقے سکھائے جائیں گے تاکہ وہ ''اخلاقیات کے سپاہی‘‘ بن کر لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔