لڑکی کو جرگے کے حکم پر جلایا گیا، پولیس
5 مئی 2016پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا میں یہ واقعہ 29 اپریل کو پیش آیا تھا۔ ضلعی پولیس افسر خرم رشید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ لڑکی کو جس کی عمر قریب 20 برس تھی، خیبر پختونخوا کے علاقے ماکول میں، پہلے گلا دبا کر ہلاک کیا گیا اور پھر اس کے جسم کو ایک سوزوکی ویگن میں باندھ کر جلا دیا گیا۔ خرم رشید کا کہنا تھا کہ اس جرم کا ارتکاب گاؤں کے جرگے کے حکم پر کیا گیا۔
پولیس افسر خرم رشید کے مطابق، ’’پولیس نے جرگے کے اُن 13 ارکان کو گرفتار کر لیا ہے، جنہوں نے اس لڑکی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘ ضلعی پولیس سربراہ کے مطابق اس لڑکی کی والدہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، کیونکہ اس نے جرگے کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔
خرم رشید کے مطابق حراست میں لیے گئے ان 14 افراد کو آج جمعرات پانچ مئی کو قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
جس ویگن میں اس لڑکی کو جلایا گیا تھا، اُس کا مالک بھی جرگے کا رُکن ہے۔ اس کی ویگن کو اس لیے جلایا گیا کیونکہ گھر سے بھاگنے والی لڑکی نے، جو اِس وقت محفوظ اور کہیں روپوش ہے، گھر سے نکل کر اسی ویگن میں سفر کیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں ہر سال سینکڑوں خواتین کو عزت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے تاہم ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی ایسے فرد کو قتل کیا جائے جس نے گھر سے بھاگنے والی کسی لڑکی کی کسی بھی طرح سے مدد کی ہو۔
پاکستان نے فوجداری قوانین میں 2005ء میں تبدیلی کر دی تھی، جس کے مطابق کسی خاتون رشتہ دار کو قتل کرنے والے مرد کو اس کے وارثوں کی طرف سے معاف کر دیے جانے کے عمل کی راہ روک دی گئی ہے۔ تاہم اب یہ بات جج کی مرضی پر ہے کہ وہ ایسے کسی قاتل کو جیل کی سزا دیتا ہے یا نہیں جسے قتل کی جانے والی لڑکی کے ورثاء معاف کر دیں۔ ناقدین کے مطابق اس نکتے کو قانونی حوالے سے غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
اس موضوع پر ایک پاکستانی خاتون فلمساز شرمین عبید چنائے کی طرف سے ایک فلم ’اے گرل ان ریور: دی پرائس آف فارگِونیس‘ بنائی گئی تھی جس پر انہیں رواں برس آسکر ایوارڈ بھی ملا تھا۔ اس فلم کی پبلیسٹی کے دوران پاکستانی وزیر اعظم نے عزم ظاہر کیا تھا کہ عزت کے نام پر قتل کی اس بُرائی کو ختم کیا جائے گا تاہم اس وقت کے بعد سے اس حوالے کوئی پیشرفت نہیں دیکھی گئی۔